تحریک انصاف کو حکومت سنبھالے دو سال گزر چکے ہیں مگر ہر طرف بگاڑ کی صورت نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے انصاف کی فوری فراہمی کے وعدے پر الیکشن جیتا تھا۔ مگر انصاف نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ہر سمت بے روزگاری، مہنگائی اور کرپشن ہی کرپشن ہے۔ تحریک انصاف کے حامی لاکھ دہائی دیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے دو برسوں میں وہ کام کیا ہے جو سابقہ حکومتیں بیس سال میں بھی نہ کرسکیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی کا یہ ثمر ہے کہ آج مسئلہ کشمیر پر ساری دنیا بول رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے مگر کچھ نہ کرسکے۔ جواباً کہنے والے کہتے کہ بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان بھی کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے مگر حقہ پینے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ شنید ہے کہ موصوف کو ہوائی جہاز میں بھی حقہ رکھنے اور پینے کی اجازت تھی۔ یوں مسئلہ کشمیر ان کے حقے کی بھینٹ چڑھ گیا۔
چلیے صاحب مان لیا وزیر اعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر بہت کام کیا ہے مگر اس حقیقت سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی غلط پالیسی کا نتیجہ ہے۔ آج ہرطرف کشمیریوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کا تذکرہ سنائی دیتا ہے تو اس میں وزیر اعظم عمران خان کا کوئی کمال نہیں۔ مودی حکومت جو کشمیریوں کے ساتھ سلوک کر رہی ہے اس کی مذمت تو بھارت کا باشعور طبقہ بھی کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مودی سرکار جو کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ سلوک کر رہی ہے پاکستان کی حکومت اس پر کس طرح کے ردعمل کا مظاہر کر رہی ہے۔ نتیجہ صفر ہے کیونکہ ردعمل، عمل کا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے نزدیک کشمیریوں کے ساتھ ہونے والا سلوک قابل فخر نہیں بھارتی سرکار کے عمل کو ظلم قرار دینا ظلم کے خلاف ردعمل ہرگز نہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر حکومت کے دور میں مہنگائی ہوتی رہتی ہے مگر حکومتیں اس مہنگائی کا تدارک کرتی رہی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دور میں بھی مہنگائی نے سر اٹھایا تھا۔ مگر ان کی حکومتوں نے مہنگائی کا سر سہلانے کے بجائے کچل دیا تھا۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ جنرل مشرف کے دور میںگھی کا پیکٹ ساٹھ روپے میں فروخت ہوتا تھا اچانک اس کی قیمت میں دو روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ جنرل مشرف نے اس کے خلاف سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا اور قیمت اپنی اصل قیمت میں آگئی سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنرل مشرف نے اضافے کے خلاف کوئی کمیٹی بنائی نہ کوئی کمیشن تشکیل دیا کیونکہ وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ کمیٹی اور کمیشن بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے دفن کردیے جاتے ہیں۔
اگر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت مافیاز کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ پٹرول مافیا، چینی مافیا، آٹا مافیا، جو چاہتے ہیں اشیاء کی قیمتی مقرر کردیتے ہیں اور حکومت ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ گویا اس وقت پاکستان پر مافیاز کی حکومت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کیا کر رہے ہیں ان کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ کیا کر رہی ہے دیگر جمہوری ادارے کیا کر رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کیا کر رہی ہے اور فوج اس معاملے میں کیا سوچ رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عوام کب تک حکومت اور مافیاز کے درمیان میں سینڈوچ بنے رہیں گے، کیا کوئی ادارہ یا مقتدر قوتیں اس معاملے میں کوئی فیصلہ کریں گی۔