آج کل کراچی پر بیان بازی کا موسم ہے۔ وزیراعظم الگ بیان دے رہے ہیں صدر ،گورنر اور دیگر وزرا الگ۔ جب کہ سندھ کے وزیراعلیٰ اور وزرا مراکز سے شکوے کررہے ہیں۔ میئر کراچی پانچ برس شہریوں کو رُلا کر آخر ی مرتبہ خود روکر چلے گئے۔ شہری اب تک رو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ کراچی کے تین بڑے مسائل حل کرنے میں سندھ حکومت سے تعاون کریں گے۔ تمام نالوں کی مکمل صفائی آبی گزرگاہوں پر قائم تجاوزات کا خاتمہ، کوڑا کرکٹ اور پانی کی فراہمی جیسے مسائل کا مستقل حل نکالا جائے گا۔ حکومت سندھ کو بھی کراچی سے ہمدردی ہوئی اور اس نے کراچی کے تمام چھ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا۔ اب ڈپٹی کمشنر نقصان کا اندازہ لگائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کراچی میں برساتی پانی کے بہائومیں رکاوٹ بننے والی تمام سرکاری و نجی عمارتیں مسمار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ شہر قائد کو اب ٹھیک کرنا ہے، خواہ کتنے ہی سخت اقدامات کرنے پڑیں۔ بڑی زبردست باتیں کی ہیں وزیراعلیٰ نے لیکن چونکہ بیانات کا موسم ہے اس لیے اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔لیکن کیا سندھ حکومت اتنی طاقتور ہے کہ برساتی پانی کے بہائو کے راستوں میں قائم سرکاری و نجی عمارتوں کو مسمار کر دے۔یہ بات بھی عجیب ہے کہ کراچی کو اب ٹھیک کرنا ہے۔تو اب تک کیوں نہیں کیا تھا،کیا شہر ڈوبنے کا انتظار تھا ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی بیان دیا ہے کہ وفاق اور سندھ کراچی کے لیے مل کر کام کریں تو مفید نتائج نکلیں گے اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں بھی مدد ملے گی کراچی کی تباہی میںجن لوگوں کا سب سے زیادہ پیسہ لگتا ہے وہ تاجر برادری ہے اور وہ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے کہ کراچی کو این ڈی ایم اے ٹھیک کر سکتی ہے یا کوئی کہتا ہے کہ فوج ٹھیک کر سکتی ہے لیکن ایسے اداروں نے براہ راست اور بالواسطہ برسوں کراچی پر حکمرانی کی ہے انہوں نے کیا کارنامہ کیا۔ ایک مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بھی تاجر برادری سے لیا جائے۔ لیکن کسی کے پاس اپنے بیان کے حق میں دلیل ہے نہ تاریخ سے کوئی حوالہ ۔ ذرا ان موسمی بیان بازیوں کا تجزیہ کیا جائے تو بڑی خوفناک صورتحال سامنے آئے گی ۔ جب بھی کسی ضلع یا علاقے کو آفت زدہ قرار دیا جاتا ہے تو انتظامیہ نقصانات کا تخمینہ لگاتی ہے حکومت اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے فنڈز جاری کرتی ہے اور پھر اخبارات میں خبریں جاری ہوتی ہیں کہ حکومت نے فلاں فلاں علاقے کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے ۔ لیکن آفت زدہ قرار دینے سے فائدہ کیا ہونا ہے اس سے قبل بھی اربوں روپے امداد کا اعلان ہوتا رہا ہے لیکن عوام میں سے کوئی یہ بتائے کہ اس کو انفرادی طور پر کیا فائدہ ہوا ۔ البتہ بعض مخصوص علاقوں میں زمینوں پر ٹیکس یا واجبات معاف ہو جاتے ہیں اس کا علم بھی ہر ایک کو نہیں ہوتا ۔سرکاری کاغذات میں یہ سب دب جاتا ہے ۔ اب کراچی کے تمام چھ اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے ۔ شہر کے ہر علاقے میں تباہی ہوئی ہے ۔ دکان ، بڑی مارکیٹ ، رہایشی مکانات سب کچھ متاثر ہوا ہے ۔ سب سے بڑھ کر بجلی کے بریک ڈائون نے بھی شہریوں کو عذاب میں مبتلا کیا ہے ۔ حکومت نے کراچی کو آفت زدہ قرار دیا ہے تو سب سے پہلے کراچی کے شہریوں کے ایک ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں ۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی ٹوٹ پھوٹ کے سبب موٹر وہیکل ٹیکس معاف کیا جائے ۔ لوگوں کی جائداد کو بری طرح نقصان ہوا ہے لہٰذا پراپرٹی ٹیکس بھی معاف کیا جائے ۔ جبکہ تنخواہ دارطبقے کے انکم ٹیکس کو بھی معاف کیا جائے ۔ ان کا بھی بری طرح نقصان ہوا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کا نقصان کون کیسے پورا کرتا ہے ۔ کس طرح کس کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے ۔ جس قسم کے بیانات حکمران دے رہے ہیں یہ محض بیانات ہیں ۔ حقیقتاً وفاق اور سندھ میں وہی کشیدگی موجود ہے جس سے دونوں نے کراچی کی جنگ کا آغاز کیا تھا ۔ اس کا اظہار وزیر اعظم کے ترجمان وزیر اطلاعات شبلی فراز کے تازہ بیان سے ہو جاتا ہے کہ اگر وفاق نے رقم جاری بھی کی تو کراچی کے لیے رقم سندھ حکومت کو نہیں دیں گے ۔ ظاہر ہے وفاق جو رقم جاری کرے گا وہ اس کے ذریعے اپنی پارٹی کو فائدہ پہنچانا چاہے گا ۔ یہ جو تاجر طبقہ ہے وہ برسہا برس سے مخمصے میں اُلجھا ہوا ہے ۔ وہ بھتے بھی آسانی سے دے دیتا ہے اور نت نئے ٹیکس بھی جلدی قبول کر لیتا ہے پھر چاہتا ہے کہ کراچی ترقی کرے ۔ حکمرانوں کے سارے بیانات کو سامنے رکھیں تو یہ آج بھی بیانات ہیں اور آنے والے کل بھی یہ بیانات ہی رہ جائیں گے ۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو ہمیشہ جماعت اسلامی نے سنوارا ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان تاجر بھی نہیں تھے ۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے نمائندے تھے اور کسی شہر کو سنوارنے کا کام صرف سیاسی جماعت کر سکتی ہے ۔