رادھا اشارے کی منتظر ہے

353

سیاسی مبصرین اور دانشور جو چاہے کہیں مگر سچ کو نہیں چھپا سکتے۔ میڈیا نے عوام کو سیاسی طور پر اتنا باشعور کر دیا ہے کہ اب کچھ بھی چھپانا ممکن نہ رہا۔ عوام اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف لندن کیوں گئے ہیں، کیسے گئے ہیں، کس نے بھیجا ہے، کون بلائے گا۔ وزیراعظم عمران خان بہت کچھ کہیں گے مگر کچھ نہیں کریں گے۔ جو قوتیں اْنھیں برسرِ اقتدار لائی ہیں انہوں نے ایک حد مقرر کردی ہے، سو وہ اپنی حد میں رہیں گے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی بھی حدیں مقرر ہیں جو پاک بھارت سرحد کی طرح ہیں۔ جب چاہیں اْن کی خلاف ورزی کریں جب چاہیں ان سے دور رہیں۔
حکومت کا کہنا کہ میاں نواز شریف اشتہاری ملزم ہیں اْنہیں آنا پڑے گا، یوں بھی میاں شہباز شریف ان کے ضامن ہیں اور ضامن کا اخلاقی فرض اور قانونی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضمانت پر عمل درآمد کرے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اے پی سی بلانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دونوں بڑی جماعتیں اس پر متفق نہیں۔ مولانا فضل الرحمن اے پی سی بلاکر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان بننا چاہتے ہیں، مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومتی ترجمان اس حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں کہ ابھی اے سی پی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز مقتدر قوتوں کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ حزب اختلاف اے پی سی بلاتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ہونے میں ابھی دو سال باقی ہیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت پانچویں برس میں شروع ہوگی تو اس وقت فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔ جمہوری حکومتیں پانچویں برس میں سنِ بلوغت میں پہنچ جاتی ہیں۔ اور اپنا فیصلہ خود کرنے کے قابل ہوجاتی ہیں۔
بعض ٹی وی اینکروں کا خیال ہے نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ گویا انہوں نے بڑے خوبصورت انداز میں اے پی سی کے انعقاد سے انکار کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نومن تیل بھی ہے اور رادھا بھی بن سنور کر تیار بیٹھی ہے اور صرف اشارے کی منتظر ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ رادھا انتظار کررہی ہے کہ کب اْسے ٹھمکے لگانے کا کہا جائے گا۔ ایک ٹی وی اینکر نے ایک حکومتی ترجمان سے استفسار کیا کہ آپ کی حکومت بڑے جوش و خروش کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ میاں نواز شریف کو لندن سے لاکر جیل بھیجا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی حکومت میاں نوازشریف کو کیسے پاکستان لائے گی۔ کیونکہ وطنِ عزیز کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی بھی حکومت اس معاملے میں شور شغب کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ حکومتی ترجمان نے بڑا معصومانہ جواب دیا حالانکہ لطائف معصوم نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمیں بھی معلوم نہیں کہ میاں نواز شریف کو کیسے پاکستان لائے گے۔ مگر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ گویا حکومت کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ میاں نواز شریف کو پاکستان لا سکیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کا حکومت عوام کو بیوقوف بنا رہی ہے۔ میاں نواز شریف کو پاکستان لانا حکومت کے بس کی بات نہیں، صرف دل کی تسلی اور عوام کو بہلانے کے لیے بیان بازی کر رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کب پاکستان تشریف لائیں گے یہ صرف وہی جانتے ہیں، جنہوں نے عمران خان کو وزیراعظم کی مسند عطا کی ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ عطا کرنے والے عطا چھینتے نہیں۔ عطا کی مدت مقرر کرتے ہیں۔ سو عمران خان بھی اپنی مدت پوری کریں گے۔
عدالت ِ عظمیٰ نے سیاست دانوں کے بارے میں کیا کہا ہے سن لیجیے، کہا گیا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں کہا سے آئے ہیں۔ عزت ِ ماآب عادلِ اعظم ایسے لوگ پاکستان کے سوا کہا پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان کی پرورش ایسے خطوط پر کی جاتی ہے کہ ان کی ذہنیت کبھی نہیں بدلتی، چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ اور جب کبھی ذہن ذہنیت پر حاوی ہو جائے تو انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ کی سینئر راہنما مشاہداللہ خان کا کہنا ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ میاں نوازشریف جھوٹ بول کر آنکھوں میں دھول جھونک کر لندن گئے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو پھر حکومت پنجاب کے خلاف ایکشن لیں۔ میڈیکل اداروں اور طبی ماہرین کے خلاف کار روائی کریں۔ مگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ وزیر اعظم اس معاملے میں قابل گرفت ہیں۔ مگر ایکشن کون لے گا، کیونکہ یہ معاملہ ایکشن لینے کا نہیں صرف میاں نواز شریف کے خلاف گندا پروپیگنڈا کرنا اور یہی تحریک انصاف کا سیاسی منشور ہے۔