سعودی، اماراتی، اسرائیلی امریکی زنجیر

452

دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ریاستیں دیرینہ پالیسیاں تبدیل کر رہی ہیں۔ دنیا مفادات کی تابع ہو گئی ہے اس لیے مسلم حکمرانوں نے بھی مفادات اور مجبوریوں کے تابع ہو کر فیصلے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ ایک عجیب و غریب کیفیت ہے۔ کسی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہمت بھی نہیں اور وہ ایسا کرنا بھی چاہتے ہیں۔ ہر ملک کو امریکا عرب ممالک تعلقات کے لالی پاپ کے ذریعے جال میں پھنسایا گیا ہے۔ سعودی عرب کو یمن، شام، عراق اور ایران کی جانب سے گھیرا ہوا ہے۔ امارات مکمل قابو میں آچکا ہے۔ تیل کی منڈی کو تباہ کرکے تیل پیدا کرنے والے دیگر عرب ممالک کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ یہ ممالک کوئی منصوبہ بندی نہ کر سکے جبکہ امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی سازش کرتے رہے۔ ایران کے ذریعے یمن میں مسائل پیدا کرکے سعودی عرب کو قابو میں کیا گیا۔ شام کے حالات ہر عرب ملک کے لیے تشویش کا باعث نہیں۔ عراق میں امریکا نواز حکمران موجود ہیں۔ تیل کی معیشت کے ذریعے دبائو الگ ہے ہر حکمران اپنی بادشاہت بچانا چاہتا ہے اس لیے اس نے امت مسلمہ کے متفقہ مسائل کے بر خلاف امریکی دبائو قبول کر لیا۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ خیر سگالی کے طور پر اسرائیل کے بائیکاٹ کا قانون ختم کیا اور اب اسرائیلی وفد سعودی عرب کی فضائوں سے پرواز کرتا ہوا امارات پہنچا۔ جبکہ سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک مجہول سی شرط عاید کی ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ گویا فلسطینیوں سے امن معاہدہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا سبب تھا۔ لیکن اسرائیلی طیاروں کے لیے سعودی فضائی حدود کھول دینے کا مطلب بھی تو کچھ ایسا ہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یقیناً سعودی فضائوں سے اسرائیلی طیاروں کے گزرنے پر امت مسلمہ کے دل مغموم ہوں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امت مسلمہ کو مزید زخم سہنے ہیں۔ اب جو صورتحال بنی ہے وہ بھی پیچیدہ ہے لیکن اس پیچیدگی کو سمجھنا اب آسان ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں شرط عاید کی ہے اور اپنی فضائیں اسرائیلی طیاروں کے لیے کھول دیں۔ ادھر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی سالمیت کا تحفظ کرے گا۔ عینی اسی روز سعودی عرب کی سالمیت کا مسئلہ کیوں پیدا ہوا جس روز سعودی فضائی حدود اسرائیل کے لیے کھولی گئیں۔ اور آیا یہ کوئی مسئلہ ہے یا محض یہ بتانے کے لیے یہ بیان دیا گیا ہے کہ ہم بھی لائن میں ہیں۔ امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ سعودی عرب نے فضائی حدود کھولیں، پاکستان نے سعودی عرب کے تحفظ کا بیان دیا۔ ان تمام بیانات کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کی اہمیت تو ساری کہانی کو واضح کر رہی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ عرب امریکا گٹھ جوڑ دراصل اسرائیل کی بقا کا ضامن ہے۔ امریکیوں سے دوستی عرب دنیا کو نہیں امت مسلمہ کو مہنگی پڑ رہی ہے۔ یہ تھا عرب امریکا دوستی کا اصل ایجنڈا جسے آج اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے خود آشکار کردیا۔ پاکستانی وزیر خارجہ کو ایسا بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ان کی شخصیت تو سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کے حوالے سے خود سوالات کی زد میں تھی اچانک وہ سعودی عرب کی سالمیت کی بات کرنے لگے۔ جبکہ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا پاکستان سعودی عرب کی سالمیت کا تحفظ کر سکتا ہے۔ کیونکہ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات کھڑے کر دیے ہیں۔ کشمیر کو ہضم کرچکا ہے آبی جارحیت کر رہا ہے ۔ کنٹرول لائن کی بار بار خلاف ورزی ہوتی ہے اور پاکستان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ۔ بلکہ حکومت پاکستان تو بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے بچھی جا رہی ہے ۔ آج کل بھارت کے خلاف چین کی کارروائیوں پر ہماری حکومت بہت خوش ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چینی فوجی کشمیرر آزاد کرانے کے لیے بھارتی فوجیوں کی پٹائی کرتے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی کا بیان بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کے تحفظ کی بات کر کے پاک سعودی ،اماراتی ، اسرائیل امریکی زنجیر میں شمولیت کا اشارہ دیا جا سکے اور یہ اشارے امریکی حکام اور اسرائیلی وزیر اعظم بھی بار بار دے رہے ہیںکہ کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے خفیہ مذاکرات کر رہے ہیں ۔ اب یہ خفیہ مذاکرات بھی نتائج تک پہنچنے والے ہیں ۔ جب سب سامنے آ جائے گا توامت مسلمہ کا امتحان شروع ہو گا ۔ کس طرف جانا ہے کس کے ساتھ رہنا ہے ۔