ہمارے بہت سے سادہ مزاج دوست ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ این آر او کیا ہے؟ وزیراعظم عمران خان اپنی ہر تقریر، ہر انٹرویو اور میڈیا سے بات چیت میں کہتے ہیں کہ وہ این آر او نہیں دیں گے۔ خواہ کچھ ہوجائے وہ این آر او ہرگز نہیں دیں گے۔ جواب میں اپوزیشن لیڈر انہیں للکارتے ہیں کہ بتائو کون این آر او مانگ رہا ہے؟ جب سے عمران کی حکومت آئی ہے یہ بیت بازی جاری ہے، کسی فریق نے اپنی ہار تسلیم نہیں کی اور این آر او کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ہمارے دوست حیران ہیں کہ این آر او نے پوری سیاست کو یرغمال بنارکھا ہے لیکن کوئی اس کا اتا پتا بتانے کو تیار نہیں ہے۔ نہ این آر او دینے والا کچھ بتانے کو تیار ہوتا ہے اور نہ ہی این آر او لینے والا کوئی سن گن لگنے دیتا ہے۔ تو لیجیے صاحب آج ہم اپنے دوستوں کی یہ حیرانی دور کیے دیتے ہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ این آر او انگریزی کے تین الفاظ کا مخفف ہے، انگریز چلے گئے لیکن انگریزی ہم پر بدستور حکمرانی کررہی ہے۔ ہمارے ہاں سارے قانون انگریزی میں بنائے جاتے ہیں اور لاگو اُن لوگوں پر کیے جاتے ہیں جو انگریزی نہیں جانتے۔ بہرکیف این آر او بھی ایک قانون ہے جو فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں بطور آر ڈیننس نافذ کیا گیا تھا۔ قانون کی نظر میں آرڈیننس کی میعاد مختصر ہوتی ہے، اگر اسمبلی اس کی منظوری نہ دے تو یہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن این آر او کا کمال دیکھیے کہ کسی اسمبلی نے اس کی منظوری نہ دی اور اسے کسی بھی مرحلے میں قانون کا درجہ حاصل نہ ہوسکا لیکن یہ ہماری قومی سیاست میں بدستور نافذ العمل چلا آرہا ہے۔ اب ہم اس کے اصل انگریزی الفاظ لکھنے کے بجائے اس کے اردو ترجمے پر اکتفا کرتے ہیں، اسے اردو میں قومی مصالحتی، یا مفاہمتی آرڈیننس کہا جاتا ہے۔ ایک فوجی حکمران کو یہ آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وہ سیاستدانوں کو اپنا حلیف بنا کر ملک پر تادیر حکومت کرنا چاہتا تھا۔ جن سیاستدانوں نے یہ آرڈیننس قبول نہ کیا ان کے لیے فوجی احتساب بیورو (نیب) کی بنیاد رکھی گئی اور انہیں احتساب کی چکی میں پیسا گیا۔ فوجی حکمران کی یہ پالیسی بڑی حد تک کامیاب رہی اور وہ بے پیندے کے سیاستدانوں کی مدد سے ملک پر دھڑلّے سے حکومت کرتا رہا۔ یہ این آر او ہی کا کرشمہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) سے مسلم لیگ (ق) برآمد ہوگئی اور اب تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ حکومت میں اپنا حصہ بھی وصول کررہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تو این آر او کی ایک جھلک دکھا کر پیپلز پارٹی سے بھی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کشید کرلی تھی لیکن اس نے زیادہ وفا نہ کی اور مشرف حکومت ختم ہوتے ہی منظر سے غائب ہوگئی۔
این آر او کو عُرف عام میں مُک مُکا کا قانون کہا جاتا ہے۔ مُک مُکا فریقین کی مرضی سے ہوتا ہے۔ یعنی معاملے کے دونوں فریق راضی ہوتے ہیں اور ایک فریق دوسرے فریق پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہلا این آر او میاں نواز شریف نے لیا تھا جو اقتدار سے معزول ہو کر جہاز کے اغوا کا مقدمہ بھگت رہے تھے۔ مقدمہ جھوٹا تھا یا سچا اس سے قطع نظر اس کی سزا موت سے کم نہ تھی۔ چناں چہ نواز شریف نے سزا سے بچنے کے لیے سعودی حکمرانوں کے ذریعے جنرل پرویز مشرف سے این آر او مانگا اور 10 سال تک سیاست اور پاکستان سے دور رہنے کی شرط پر جان بچا کر سعودی عرب چلے گئے۔ انہوں نے ایک دفعہ اس این آر او کی خلاف ورزی کی اور 10 سال سے پہلے پاکستان آنے کی کوشش کی تو اسلام آباد ائرپورٹ سے انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد سول حکومتیں آئیں اور میاں نواز شریف بھی تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو یہ سب ’’مُک مُکا‘‘ یعنی این آر او کی مہربانی تھی ورنہ وہ کب کے سیاست سے آئوٹ ہوچکے ہوتے۔ اب 2 سال پہلے عمران خان برسراقتدار آئے ہیں تو یہ بھی مک مکا ہی کا نتیجہ ہے۔ عمران خان کو خوب معلوم ہے کہ مک مکا کیا ہوتا ہے اور این آر او کا کیا مطلب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب سے برسراقتدار آئے ہیں ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ’’این آر او نہیں دوں گا، ہرگز نہیں دوں گا‘‘۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عمران خان اس راگ کے باوجود اپنے حلیفوں اور حریفوں کو بڑی فراخدلی سے این آر او دے رہے ہیں۔ حکومت کی تشکیل کے لیے جب انہیں سیاسی حلیفوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ان تمام کرپٹ عناصر کو این آر او دے دیا جو حکومت سازی میں ان کے معاون ہوسکتے تھے۔ ان کے خلاف نیب میں بھی مقدمات ہیں لیکن مجال ہے کوئی ان پر ہاتھ ڈال سکے۔ اب یہی دیکھیے کہ شوگر کرپشن کیس میں جہانگیر ترین کو بڑا ملزم قرار دیا جارہا تھا لیکن پرانی سیاسی رفاقت آڑے آئی اور انہیں این آر او دے کر لندن بھیج دیا گیا جہاں وہ اچھے دنوں کی آس میں سکون سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف بھی صحت کی آڑ میں عمران خان سے این آر او لے کر ہی لندن گئے تھے اور خان صاحب نے ان کی صحت یابی کے لیے دعا بھی کی تھی۔ میاں صاحب طویل عرصے سے لندن میں مقیم ہیں۔ اب سنا ہے کہ قانونی ماہرین نے خان صاحب کو بتایا ہے کہ میاں صاحب کے این آر او کی میعاد ختم ہورہی ہے اس لیے انہیں واپس بلایا جائے۔ چناں چہ حکومت نے انہیں واپس لانے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور عدالت سے بھی رجوع کرلیا ہے۔ بعض سیانے کہتے ہیں کہ اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی ہے کہ مسلم لیگی رہنما رانا ثنا اللہ نے انکشاف کیا ہے کہ میاں صاحب لندن میں بیٹھ کر اپنا علاج کرانے کے بجائے حکومت کا ’’علاج‘‘ کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ علاج کارگر ہوگیا تو حکومت فارغ ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میاں صاحب میں اب وہ دم خم نہیں رہا کہ لندن میں بیٹھ کر حکومت کی نبض دیکھ سکیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ کسی طاقتور ہاتھ کے ذریعے این آر او میں مزید توسیع کرائیں اور حکومت دیکھتی رہ جائے۔
ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ این آر او ’’مک مکا‘‘ کا انگریزی نام ہے۔ ہماری سیاست میں مک مکا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ عمران خان نے اس راز کو پالیا ہے اس لیے ان کی کرسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کے حریفوں کو این آر او چاہیے اور انہیں کرسی۔ دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہیں اور دونوں مزے میں ہیں۔