تیس برس سےشہر کوتجاوزات کا جنگل بنانے والے کے ایم سی کےمحکمہ سے شہر میں آپریشن کرایا جا رہا ہے

72

کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری) شہر قائد میں نالوں پر قائم تجاوزات مسمار کرنے کا آغازکردیا گیا ہے مگر حیرت انگیز طور پر یہ آپریشن شہر کو تجاوزات کا جنگل بنانے والے اور قوانین کے برخلاف زمین لیز دینے والے کے ایم سی کے محکمہ انسداد تجاوزات سے کرایا جا رہا ہے۔گزشتہ تیس برس کے دوران کے ایم سی، کے ڈی اے کے محکمہ لینڈ نا صرف چائنا کٹنگ کی گئی بلکہ شہر کے مختلف نالوں،پارکس، میدانوں اور رفاحی پلاٹوں کی بھاری رشوت کے عیوض الاٹمنٹ اور لیزیں کے ایم سی اور کے ڈی اے نے ہی جاری کی ہیں۔

جبکہ گزشتہ چار سال کے دوران کے ایم سی محکمہ انسداد تجاوزات نے شہر بھر میں قائم تجاوزات کے خاتمے کے بجائے سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف بھاری رشوت کے عیوض شہر بھر میں کھلے عام تجاوزات کی سرپرستی میں مصروف ہے جس کی وجہ سے شہر کا کوئی رہائشی و تجارتی علاقہ کوئی سڑک کوئی بس اسٹاپ ایسا نہیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں تجاوزات قائم نا ہوں۔ذرائع کے مطابق بشیر صدیقی کے سینئر ڈائریکٹر محکمہ انسداد تجاوزات تعینات ہونے کے بعد شہر تجاوزات کے جنگل میں تبدیل ہوگیا ہے محکمہ کی سرپرستی میں شہر بھر میں لاکھوں کی تجاوزات قائم کی گئیں جن سے ماہانہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا جارہا ہے۔

شہر کے برساتی نالوں پر قائم مکانات بھی کے ایم سی افسران کی سرپرستی میں تعمیر کیے گئے اور گجر نالے سمیت دیگر کے ایم سی کی زمینوں پر پلاٹوں کو لیز بھی کے ایم سی نے ہی جاری کی ہیں تاہم نالوں پر قائم تجاوزات مسمار کرنے کے آپریشن میں کے ایم سی کی شمولیت نے آپریشن کو متنازع بنادیا ہے۔اسی طرح ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی نے اسکیم 33 ابوالحسن اصفہانی روڈ پر “بگ بائے سپر اسٹور” (Big Buy Super Market) کمرشل مارکیٹ جو کےنالے کی زمین پر قبضہ کر کے بنائی ہے،حالیہ بارشوں کے دوران ڈوب گئی ہے۔

ابوالحسن اصفہانی روڈ پہ عباس ٹاؤن کے سامنے واقع یہ پورا اسٹور اور فلیٹ نالے کی زمین پہ قبضہ کرکے بنایا گیا ہے اور یہ وہی نالہ ہے جہاں پیپلزپارٹی کی رہنما شہلا رضا کے بچے ڈوب کے جاں بحق ہوئے تھے۔یہ”بگ بائے سپر اسٹور”اٹھائیس فروری کو رواں سال کھولا گیا تھا جسکی افتتاحی تقریب میں اس وقت کے ڈی ایم سی ضلع شرقی کے چیئرمین معید انور،(جے ڈی سی) کےظفر عباس سمیت دیگر معروف تاجروں اور سیاسی و سماجی رہنما وں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی،اورمحض چھ مہینے میں یہ دوسرا سپراسٹور کھولنے جارہے تھے۔

زارئع کا کہنا ہے کہ 2005 سے پہلے اسی مقام پر “باڑہ مارکیٹ” تعمیر ہو رہی تھی،لیکن کورٹ کے آرڈر کی وجہ سے کچھ عرصے بعد کام رک دیا گیا تھا۔تاہم پھر کچھ برس بعد تعمیراتی کام شروع ہوا، پھر باڑہ مارکیٹ کے بجائے کسی اور نام شروع ہوا.اور اب صورتحال سب کے سامنے ہے،صرف یہی نہیں،اسکیم 33 میں مزید نالے ہیں،سب کے ساتھ تقریباً یہی قبضے والی کہانی ہے۔

بگ بائے سپر اسٹور میں سرمایہ کاری کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ بگ بائے سوپر اسٹورمیں ہماری کپڑوں،موبائل فون اور دیگر الیکٹرونکس مصنوعات سمیت درجنوں دیگر دکانیں تھیں،عمارت میں بارش کا پانی بھرنے کی وجہ سے تاجر برادری کا45 کروڑوں روپے سے زایدکا نقصان ہوا ہے۔

علاقہ مکینوں نے متعلقہ حکام سے اپیل کی ہے کہ نالے کی زمین پر قبضہ کرکے “بگ بائے سپر اسٹور” تعمیر کرنے والے سپر اسٹور کے مالک اورایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی سمیت دیگر افراد سے باز پرس کی جائے اور نالے پر قائم سپر اسٹور کی صورت میں قائم تجاوزات کو فوری طور پرختم کرائی جائمکینوں کا مزید کہنا تھا کہ بارش ہونے کے بعد علاقے میں پانی کی روانی برقرار نہیں رہتی ہے جس کی وجہ سے پانی گھروں اورعلاقے میں واقع دکانوں میں داخل ہو جاتا ہے ،جس سے ہمیں شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔

جبکہ جے ڈی سی کےظفر عباس گزشتہ دنوں اپنی این جی او کو عطیہ دینے والے ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے حوالے سے نوحہ کناں نظر آئے۔نالے کی زمین پر ناجائز طریقے سے سپر اسٹور بنا کر کمائے جانے والے مال کو حلال بنانے کے لیے ظفر عباس نے اپنی خدمات انجام دی اور یہی طریقہ واردات ظفر عباس نے پچھلی بارشوں میں سب زیادہ متاثرہ ضلع وسطی کے بلدیاتی چیرمین اور ایم کیو ایم کے رہنما ریحان ہاشمی کے حق میں استعمال کی تھی۔دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ نالوں پر قائم تجاوزات کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے مگر آپریشن سے قبل نالوں کے اطراف رہنے والوں کو پہلے متبادل رہائش فراہم کی جائے اس کے بعد آپریشن کیا جائے شہریوں کا مزید کہنا ہے کہ نالوں پر قائم مکانات کو لیز دینے والے سرکاری محکموں کے افسران کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جائے صرف مکانات مسمار کرنا مکینوں کے ساتھ زیادتی ہے۔واضح رہے کہ 3 اگست 2016 کو کراچی کےتجارتی مرکز صدر کی عبداللہ ہارون روڈ پر واقع موبائل مارکیٹ جو کے نالے پر تعمیر کی گئی تھی، گندے نالے میں گیس بھر جانے سے دھماکہ ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں نالے پر قائم 2 منزلہ کمرشل عمارت کا بڑا حصہ گر گیا تھا،عمارت گرنے سے کئی افراد ملبے تلے دب کر زخمی ہوگئے تھے۔