انصاف نہیں کیا جائے گا تو عرشِ الٰہی تو لرزے گا

364

جب سے موجودہ حکومت کی داغ بیل پڑی ہے اس وقت سے پورے ملک میں توڑا پھوڑی کے سوا کوئی ایک کام، کام کا دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توڑی جانے والی عمارتیں ایسی زمینوں پر تعمیر کی گئیں تھیں جن کو ناجائز یا قبضہ کی ہوئی جگہ کہا جاتا ہے۔ مزید توڑی جانے والی عمارتیں بھی یقینا قبضہ کی ہوئی جگہوں پر ہیں اور خصوصاً وہ عمارتیں جو قدرتی طور پر برساتی پانی کے بہاؤ کے راستوں پر بنائی گئی ہیں وہ تو ہیں ہی اس قابل کہ ان کو توڑ دیا جانا چاہیے تاکہ برساتی پانی کو قدرتی طور پر گزرنے کا راستہ مل سکے۔ ہر وہ عمارت جو غیر قانونی طور پر، خواہ سیاسی بنیاد پر بنائی جائے یا بر بنائے سیاسی انتقام، اس کو توڑ ہی دینا نہ صرف امن و امان کے لیے ضروری ہے بلکہ بے شمار انتظامی امور بھی اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بغیر کسی منصوبہ بندی، کوئی بھی بستی آباد نہیں ہونی چاہیے۔
قارئین سیاسی بنیاد پر بسائی جانے والی بستیوں کے متعلق تو خوب آگاہی رکھتے ہیں لیکن سیاسی ’’انتقام‘‘ کی بنیاد پر تعمیر کی جانے والی بات شاید ان کی سمجھ سے بالا تر ہو جائے تو میں عرض کروں کہ کراچی پورے پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جہاں ایوب خان کے زمانے سے ہر وارد ہونے والے فرد یا خاندان کو یہ کھلی اجازت حاصل رہی ہے کہ وہ جہاں چاہے نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ گھر تعمیر کرکے اپنی نسل کو جتنا چاہے پروان چڑھا سکتا ہے۔ چناںچہ کارخانے بنے تو ان کی دیواروں کے ساتھ دیوار جوڑی جا سکتی تھی، ریلوے لائن کے اطراف جی کھول کر بستیاں بسائی جا سکتی تھیں اور نالے تو ہر آنے والے کے لیے اس طرح کھول کر رکھ دیے گئے تھے جیسے سارے مجنوں اپنی اپنی لیلاؤں کے لیے دلوں کے سارے دروازے و کھڑکیاں کھول کر رکھ دیا کرتے ہیں۔
کسی بھی شہر میں سب سے خوبصورت جگہ اس کے پہاڑی علاقے اور سب سے زیادہ گندے علاقے اس کے نالے ہوا کرتے ہیں۔ کراچی بھی سطح مرتفع بلوچستان میں شامل ہونے کی وجہ سے جہاں بڑے بڑے ہموار میدانی علاقوں پر مشتمل نظر آتا ہے وہیں اس کے اطراف میں اونچی نیچی پہاڑیوں کے سلسلے بھی ہیں لیکن کراچی کی کوئی پہاڑی بھی بے ہنگم اور بے ڈھب ناجائز بستیوں سے خالی نہیں۔ ان سب آبادیوں میں ہر وہ کمیونٹی آباد ہے جو پاکستان کے دیگر صوبوں سے بسلسلہ روزگار یہاں منتقل ہوتی رہی ہے۔ یہی حال نالوں پر تعمیر کی گئی بستیوں کا ہے اور وہاں بھی 90 فی صد سے کہیں زیادہ بستیاں ایسے ہی افراد کی آبادی پر مشتمل ہیں جو کراچی سے باہر کے شہروں سے آکر اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے آباد ہوتے رہے ہیں۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان معاملات میں سیاسی پارٹیوں کا عمل دخل رہا ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا سب سے پہلے ایوب خان کے زمانے میں کیا گیا۔
اس میں بہر حال ایک انتقامی سوچ کا عمل دخل شامل تھا۔ ایسی سوچ کو بھٹو دور میں مزید آگے بڑھایا گیا اور اندرون سندھ کی آبادی کو یہاں لانے کی کوشش میں کراچی کے اطراف میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی اور ان آبادیوں کو لیز بھی دیدی گئی۔ جب کسی گھر یا بازار کو جس کا جہاں جی چاہے وہاں بسا سکتا ہو، اسے بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی سہولتیں بھی مل سکتی ہوں، اس کی گلیاں اور گزرگاہیں سرکاری سطح پر پختہ بھی کی جاتی ہوں، پتے بھی الاٹ ہوجاتے ہوں تو کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو لاکھوں روپے مالیت کی زمین خرید کر اس میں رہائش اختیار کرے گا چانچہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔
ایک طویل عرصے بعد ان بسی بسائی بستیوں اور جمے جمائے کاروباری مراکز کو مسمار کیا جا رہا ہے تو کیا صرف برسوں سے رہائش پزیر خاندانوں اور کروڑوں روپوں کا کاروبار کرنے والوں کو راتوں رات اجاڑ دینا انصاف کہلائے گا؟۔ کیا یہ سسکیاں اور آہیں مزید آفتوں کو دعوت نہیں دیں گی، کیا نوے نوے سال کے ریکارڈ ٹوٹتے اور بنتے نہیں رہیں گے، کیا دریاؤں کے پل اور پشتے نہیں ٹوٹیں گے، کیا زلزلے برپا نہیں ہوںگے اور کیا سمندر کبھی جوش میں نہیں آئے گا؟۔ یہ تعمیرات جو کراچی میں چیچک کے دانوں کی طرح چاروں جانب پھیلی ہوئی ہیں اس میں صرف بستیوں میں رہنے والے اور بازاروں میں کاروبار کرنے والے قصوروار ہیں؟۔ کیا سیاسی
جماعتیں، مقتدر ادارے اور محکموں کا ان میں کوئی عمل دخل نہیں ہے؟۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ سب کو ایک ساتھ سزا ملے اور ایوبی دور سے اب تک جو جو محکمے، ادارے، سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہبران اس جرم میں شامل رہے ہیں، ان سب کے خلاف ایک ساتھ کاروائی ہونی چاہیے ورنہ پھر غیر معمولی بارشوں، دریاؤں کے پشتے ٹوٹنے، آندھیوں، طوفانوں، زلزلوں اور سمندر کے بپھرجانے جیسی آفتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے اس لیے کہ مظلوموں کی آہیں اٹھتی تو فرش سے ہیں لیکن عرش ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نالوں کی تنگی نے بستیوں کو بہت نقصان پہنچایا ہوگا لیکن عقل والے اس بات سے بھی عبرت پکڑیں کہ نیا ناظم آباد اور ڈیفنس جیسے علاقوں کے نہ تو نالے کچروں سے بھرے ہوئے تھے اور نہ ہی ان پر کسی بھی قسم کی ناجائز تعمیرات کی گئیں تھیں۔ وہ علاقے جہاں کے نالے تنگ کر دیے تھے ان سب میں آج کہیں بھی پانی نہیں رکا ہوا لیکن جہاں نالے پہلے کی طرح کشادہ اور علاقے کچرے سے پاک ہیں وہاں پانی اور پورے کراچی کی گندگی کی موجودگی اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ ظلم ظلم ہوتا ہے اور اگر اللہ چاہے تو زمین پانی چوسنے سے انکار ہی نہیں پانی کو اگلنا بھی شروع کر سکتی ہے۔ لہٰذا حکام بالا توڑ پھوڑ ضرور کریں لیکن پہلے ان سب محکموں، اداروں، سیاسی پارٹیوں، ان کے سربراہوں اور تمام مقتدر اداروں کے سر توڑیں جو ناجائز آباد کاری کے سنگین جرم میں پوری طرح ملوث رہے ہیں ورنہ اٹھایا جانے والا ہر قدم فرعونی تو کہلایا جا سکتا ہے موسوی کسی بھی صورت نہیں کہلایا جائے گا۔