مجھے جس نے 1965کی جنگ اور اس سے قبل کے حالات سرحد پار دلی میں ایک صحافی کی نظر سے دیکھے، اور اس پُر آشوب دور میں دلی کی تہاڑ جیل میں قید تنہائی کاٹی۔ اسے افسوس ہوتا ہے کہ اس جنگ کے بارے میں بعض تاریخی حقائق کو صحیح تناظر میں پیش نہیںکیا جاتا بلکہ انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ پینسٹھ کی جنگ اچانک بھڑکی۔ جب کہ مہینوں پہلے جبرالٹر آپریشن سے اس جنگ کے خطرات نمایاں نظر آنے شروع ہوگئے تھے۔ جبرالٹر آپریشن کے سلسلے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ 1962کی جنگ میں چین کے مقابلے میں ہندوستان کی شکست کی وجہ سے پاکستان کے حوصلے بڑھے تھے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اپریل 65 میں رن آف کچھ میں پاکستانی فوج کو بیاربٹ فتح کرنے میں جو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی اس نے اس غلط فہمی کو جنم دیا کہ پاکستان ہندوستان کا فوجی مقابلہ کر سکتا ہے۔ ہندوستان کی اس شکست پر جن سنگھ کے اٹل بہاری نے ہندوستانی فوج کو طعنہ دیا تھا کہ چین سے شکست کا دوش ہم ہمالیہ کی بلندیوں کو دیتے ہیں۔ رن آف کچھ کی ہار کو کیا یہاں کی دلدل کو دوش دیں گے؟
کشمیر کی 1947-48 کی جنگ کے بارے میں بہت کچھ لکھ گیا ہے لیکن ایک بنیادی حقیقت کو نہ جانے ہم کیوں بھلا دیتے ہیں کیا اس وجہ سے کہ نشیب میں پانی آتا ہے۔ اس جنگ سے پہلے اگست 1947 کے آخر میں کشمیر کی مسلم کانفرنس کے صدر سردار ابرہیم لاہور آئے تھے۔ انہوں نے پونچھ میں راجا کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت میں پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے میاں افتخار الدین سے ملاقات کی تھی۔ جس کے بعد میاں صاحب صورت حال کا خود جائزہ لینے سری نگر گئے تھے۔ واپسی پر انہوں نے کشمیر کے مسلمانوں کی امداد کے لیے جنرل اکبر خان سے ایک منصوبے پر غور کیا تھا۔ اس دوران میاں افتخار الدین دوبارہ سری نگر گئے اور شیخ عبداللہ سے ملاقات کی جو چند روز پہلے جیل سے رہا ہوئے تھے۔ شیخ عبداللہ چاہتے تھے کہ پاکستان کشمیریوں کی مدد کرے۔ میاں صاحب نے شیخ عبداللہ کو پاکستان آنے پر آمادہ کیا تاکہ پاکستان کے رہنماوں سے حمایت حاصل کی جاسکے۔
میاں افتخار الدین شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ لائے۔ ان کی کوشش تھی کہ قائد اعظم سے شیخ عبداللہ کی ملاقات کرائی جائے، لیکن بدقسمتی سے قائد اعظم نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔ یوں کشمیر کے بارے میں میاں صاحب کا مشن ناکام ہوگیا۔ میاں صاحب نے نہایت افسردگی کے عالم میں کہا کہ پاکستان نے کشمیر گنوا دیا۔
صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو جبرالٹر آپریشن بھی پاکستان کی تاریخ کا مہلک باب ثابت ہوا۔ جبرالٹر آپریشن کا مقصد پاکستان کی فوج کے کمانڈوز کو مجاہدین کے بھیس میں مقبوضہ کشمیر میں چوری چھپے بھیج کر وہاں بڑے پیمانے پر شورش برپا کرنا تھا۔ منصوبے کے مطابق یہ کمانڈوز مقامی کشمیریوں کی مدد سے وادی کے مختلف علاقوں میں چھاپا مار جنگ لڑتے ہوئے نو اگست کو سری نگر میں جمع ہوتے۔ اس روز شیخ عبداللہ کی انیس سو تریپن میں پہلی گرفتاری کی سالگرہ کے موقع پر محاذ رائے شماری نے عام ہڑتال کا اعلان کیا تھا اور ایک بڑے اجتماع کا اہتمام کیا تھا۔ منصوبے کے تحت اسی جلسے سے کمانڈوز حملہ کرتے اور یوں ہندوستان کی حکمرانی کے خلاف عوامی بغاوت کا آغاز ہوتا۔ ایک عجیب و غریب بات یہ تھی کہ جبرالٹر آپریشن کا منصوبہ تیار کرنے والے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو یہ تو باور کرارہے تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات شورش کے لیے ساز گار ہیں لیکن کشمیر میں انہوں نے کسی کشمیری تنظیم کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ دلی میں یہ بات عام تھی کہ پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کو جبرالٹر آپریشن کے منصوبے کا پورا علم تھا اور اس آپریشن کے تحت پاکستان سے کشمیر میں داخل ہونے والے کمانڈوز کی نقل و حرکت کی تمام اطلاعات دلی میں امریکا کے سفیر ہندوستان کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو دے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی کمانڈوز کنٹرول لائن پار کرتے ہی پکڑے گئے۔
یکم ستمبر کو صدر ایوب خان نے نشری خطاب میں اعلان کیا کہ ہندوستان پاکستان پر کشمیر میں جنگ مسلط کررہا ہے۔ اس کے جواب میں تین ستمبر کو لال بہادر شاستری نے اپنے نشری خطاب میں کہا کہ ہم نے سیکڑوں در اندازوں کو کامیابی سے نبٹا ہے اور اپنے دفاع کی خاطر جنگ بندی لائن کے پار فوجی کارروائی کی ہے۔ جواب میں پاکستانی فوج نے پانچ ستمبر کو جوڑیاں پر قبضہ کر لیا جہاں سے اکھنور صرف چھ میل دور رہ گیا تھا اور اگر اکھنور پر پاکستان کا قبضہ ہو جاتا تو پونچھ جانے والی شاہراہ کٹ جاتی اور جموں اور سری نگر کے درمیان راستہ بند ہو جاتا۔ آخرکار چھ ستمبر کو ہندوستانی فوج نے بین الاقوامی سرحد پار کر کے لاہور پر حملہ کردیا اور دونوں ملکوں میں جنگ بھڑک اٹھی۔ وہ لوگ جو تاریخ کے واقعات کو ایک دوسرے پر اثر انداز محرکات اور ایک دوسرے سے جڑی کڑیوں کی صورت میں دیکھتے ہیں ان کے نزدیک جبرالٹر آپریشن دراصل پاکستان کو دو لخت کرنے کا محرک اول ثابت ہوا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں انیس سو پینسٹھ کی جنگ کی آگ بھڑکی اور جب اس جنگ کے دوان ایک ہزار میل دور پاکستان کے دوسرے حصہ کے عوام نے اپنے آپ کو غیر محفوظ اور غیر متعلق محسوس کیا تو اس احساس نے بنگلا دیش کی تحریک کے بیج بوئے اور اس کے نتیجے میں بنگلا دیش کے بحران اور سن اکہتر کی جنگ نے آخر کار ملک کو دو لخت کر دیا۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔