اسلام آباد/کوئٹہ(آن لائن)انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور (ایف سی)سائوتھ میجر جنرل سرفراز علی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے علاقے تربت میں ایف سی اہلکار کی فائرنگ سے نوجوان حیات بلوچ کی ہلاکت کے معاملے کو ادارے سے نہ جوڑا جائے، یہ ایک انفرادی فعل ہے، ایک شخص کی غفلت ہے ،یہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ ایک کرمینل معاملہ ہے، ایف سی اہلکار نے جذبات میں آکر حیات بلوچ پر فائرنگ کی۔ ملزم شادی اللہ 10 سال پہلے ایف سی میں بھرتی ہوئے اور چار سال پہلے ایک دھماکے میں زخمی بھی ہوئے تھے وہ ایک بہادر نوجوان ہے لیکن اس واقعے کو کسی صورت بھی جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعرات کوسینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کو حیات بلوچ کے قتل سے متعلق بریفنگدیتے ہوئے کیا۔ جمعرات کو سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں آئی جی ایف سی بلوچستان اور آئی جی پولیس بلوچستان کو حیات بلوچ کے قتل کے معاملے پر بریفنگ کے لیے طلب کیاتھا۔سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق میں حیات بلوچ کے قتل کے معاملے پر آئی جی ایف سی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ ایک کرمینل معاملہ ہے، ایف سی اہلکار نے جذبات میں آکر حیات بلوچ پر فائرنگ کی اس کو ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’13 اگست کو ایف سی کی دو گاڑیاں ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ کی جانب جارہی تھیں جس میں میں ایک نوجوان کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا اور اسے دوسرے کیمپ لے جایا جا رہا تھا تاکہ وہ جنازے میں شرکت کے لیے ائرپورٹ جا سکیں۔انہوں نے کہا کہ ’11 بج کر 50 منٹ پر کھجوروں کے باغ کے پاس سے قافلہ گزر رہا تھا کہ اس دوران سڑک پر کھڑی موٹر سائیکل میں نصب بم کا دھماکاہوا۔ دھاکے کے نتیجے میں ایف سی کے تین اہلکار زخمی ہوئے۔ ایسی صورت حال میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پورے علاقے کو گھیرے میں لیا جائے اور وہاں موجود افراد سے پوچھ گچھ کی جائے۔آئی جی ایف سی میجر جنرل سرفراز نے بتایا کہ ‘وہیں پر حیات بلوچ اپنے والد کے ساتھ کھجور کے باغ میں کام کر رہا تھا۔ ہم نے حیات بلوچ کو بلا کر سائیڈ پر بٹھایا۔ اس دوران شادی اللہ نامی ایف سی اہلکار نے جذبات میں آکر خودکار گن کے ساتھ حیات بلوچ پر فائرنگ کر دی۔آئی جی ایف سی کے مطابق ایف ایس اہلکار اتنے غصے میں تھا کہ جب اس نے فائرنگ کی تو ہمارے جے سی او بھاگتے ہوئے ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ یہ کیا کیا تم نے تو شادی اللہ نے ان پر بھی بندوق تان لی اور جذباتی ہو کر کہا کہ جب ہمارے اوپر حملے ہوتے ہیں تو آپ لوگ بولتے نہیں۔آئی جی ایف سی نے بتایا کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا اسے انسانی حقوق کا واقعہ بنا کر ادارے کے ساتھ نہ جوڑا جائے ۔چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز کھوکھر نے آئی جی ایف سی کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ یہ کرمینل نہیں انسانی حقوق کی پامالی کا واقعہ ہے اور آئین پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے پورا ایک چیپٹر موجود ہے۔آئی جی ایف سی نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے خود ایف سی اہلکار کو پولیس کے حوالے کیا۔آئی جی ایف سی نے کمیٹی سے درخواست کی کہ اس کیس کے حوالے سے مزید بریفنگ ان کیمرہ رکھ لیں جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے اجلاس کی کارروائی ان کیمرہ کر دی گئی۔