سندھ میں بلدیاتی اداروں پر قبضے کی جنگ میں وزیراعلیٰ اور ان کے وزرا ہی لڑنے لگے۔ ایک دوسرے کے خلاف گروپ بن گئے۔ سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے اختلافات کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے ایک ایک کرکے صوبائی وزیر بلدیات سے قربت رکھنے والوں کی چھٹی کرنا شروع کر دی ہے اور اپنے قریبی لوگوں کی تیزی سے تعیناتیاں کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ایسے موقع پر جب سندھ میں بلدیاتی ادارے تحلیل کر دیے گئے ہیں۔ کراچی، حیدرآباد اور اہم شہروں میں باقاعدہ ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر ضروری ہے خصوصاً بارش سے متاثر ہونے کے سبب یہاں اہل اور سینئر افسران کا تقرر ضروری ہے۔ وہاں ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر بھی نہیں کہا جا سکا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اندر کھینچا تانی چل رہی ہے۔ لیکن کیوں؟ وزیراعلیٰ سندھ وفاق سے لڑ رہے ہیں کہ سندھ اور کراچی کو نظر انداز کر رکھا ہے لیکن خود بھی تو کراچی کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ کراچی میں بارش کی تباہی کے تناظر میں ایک مستعد اور سینئر افسر کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جانا چاہیے لیکن اس پر بھی اپوزیشن، تاجر برادری اور حکومت کی کوشش ہے کہ اپنے اعتماد کا آدمی مقرر کیا جائے۔ اس تاخیر کے نتیجے میں نقصانات اور خرابیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بلدیاتی اداروں پر قبضے کے لیے پیپلز پارٹی کے اندر ہی جنگ نہیں ہو رہی بلکہ پی ٹی آئی کی کوشش بھی ہے کہ اسے کراچی کے معاملات میں عمل دخل مل جائے۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خرابی تو یہ ہے کہ ان پارٹیوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کراچی کی خدمت نہیں کرنا چاہتیں۔ صوبے کی حکمران پارٹی میں تو جنگ فطری یا ان کے مزاج کے مطابق ہے۔ مرکزی پارٹی کو تو کراچی کا معاملہ غیر جانبداری سے حل کرنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ بھی پیراشوٹ کے ذریعے اس شہر کے معاملات میں دخیل ہونا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں کون کس پر اعتماد کرے گا۔ اگر وزیراعظم کو کراچی سے اور صوبہ سندھ کی ترقی سے دلچسپی ہے تو انہیں ان کھینچا تانی کو ختم کرانا ہوگا۔ جمعہ کے دن ہی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کا بیان ہے کہ وفاق اور صوبوں کے تنازعات حل کرنے اور فیصلوں پر عملدرآمد کا اختیار حاصل ہے۔ کئی برس سے اختیار نہ ہونے کی رٹ سن سن کر لوگ عاجز آچکے تھے کم ازکم عدالت عظمیٰ نے یہ تو کہا کہ اس کے پاس اختیار ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ عدالت ایسے معاملات میں فیصلے دینے لگے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا عدالت کو کراچی کی آبادی میں ڈنڈی مارنے اور اس شہر کی حلقہ بندیوں کو درست کرانے کے لیے اپنے اختیار کو استعمال کرنا چاہیے اور اپنے فیصلوں پر عملدرآمد بھی کرانا چاہیے۔ فی الوقت کراچی کے بارے میں لڑنے والی پارٹیوں سے کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔