انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آر ایس) پشاور قابل مبارک باد ہے جس نے گزشتہ دنوں معاشرے کو درپیش ایک انتہائی اہم مسئلے کے شعبہ تعلیم پر اثرات کے موضوع پر ایک مباحثے کا انعقادکیا جس میں نجی اور سرکاری تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے نامی گرامی ماہرین تعلیم نے تبادلہ خیال کیا جن میں ڈاکٹر محمد اقبال خلیل چیئرمین آئی آر ایس پشاور، پروفیسر ڈاکٹر فرزند علی جان وائس چانسلر اقراء نیشنل یونیورسٹی پشاور، پروفیسر آصف احمد ایم ڈی دی انگلش لینگویج اسٹوڈیو پشاور، پروفیسر ڈاکٹر ارباب خان آفریدی ایم ڈی ماسٹر کوچنگ اکیڈمی، ڈاکٹر حیدر دارین ڈائریکٹر کے ایم یو انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل تھراپی، احمد حسین ایم ڈی بک آن وہیلز، سمیع اللہ خلیل جنرل سیکرٹری اسکولز آفیسرز ایسوسی ایشن خیبر پختون خوا، حبیب الرحمن اورکزئی کنسلٹنٹ ڈی ایف آئی ڈی، مولانا مسیح گل بخاری مدیر مدرسہ دارلاسلام الاسلامیہ خیبر کلے پشاور، میاں انور سید ہمدرد لیبارٹریز پشاور، پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمن قریشی سابق چیئرمین سیکنڈری بورڈ پشاور، پروفیسر جمشید خان صدر کالج ٹیچرز موومنٹ خیبر پختون خوا، فضل اللہ دائود زئی رکن خیبر پختون خوا پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی ونائب صدر پین خیبر پختون خوا شامل تھے۔ واضح رہے کہ شروع میں کورونا پر مختلف آراء سامنے آتی رہیں جسے صحت کا ایک عام معاملہ سمجھ کر ڈیل کیا جاتا رہا البتہ بعد میں یہ صحت کے ساتھ ساتھ ایک بڑے اقتصادی مسئلے میں تبدیل ہوا۔
لاک ڈائون سے بے روز گاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں کئی مسائل نے معاشرے کو متاثر کیا ہے۔ اس سے مذہبی شعائر اور عبادات مثلاً باجماعت نمازیں، عیدین، جنازے حتیٰ کہ حج اور عمرے بھی متاثر ہوئے۔ اس بات میں کوئی دوآراء نہیں ہیں کہ اس وباء سے سب سے زیادہ تعلیمی شعبہ متاثر ہوا ہے۔ بچوں کے تعلیمی حرج کے ساتھ ساتھ ان پر نفسیاتی اور سماجی اثر ہوا ہے۔ لاک ڈائون نے نرسری سے لیکر Phd کی سطح تک تمام درجات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق یہ بات لائق توجہ ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ اور صوبہ خیبر پختون خوا میں تقریباً پچیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس صورتحال میں ایک محتاط اندازے کے مطابق نجی شعبہ بچوںکی نصف تعداد کو معیاری تعلیم مہیا کررہا ہے۔ لاک ڈائون کے باعث جہاں پوری دنیا کے معمولات متاثر ہوئے ہیں وہاں اسکولوں کی بندش سے تعلیم و تعلّم کا سلسلہ بھی پچھلے پانچ ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔ صوبے میں 3600نجی تعلیمی ادارے ہیں جو صوبے کے تقریباً 24 لا کھ بچوں کو معیاری تعلیم مہیا کررہے ہیں۔ ان اسکولوں سے ڈیڑھ لاکھ تدریسی و غیر تدریسی عملہ کا روزگار وابستہ ہے۔ اسکولوںکی بندش کے باعث ان اداروں کو بہت سے مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے جن میں مالی بحران سب سے سنگین ہے۔ تمام نجی تعلیمی ادارے طلبہ وطالبات کی فیسوں سے چلتے ہیں اور اس فیس کا اکثر حصہ اخراجات کی مد میں چلا جاتا ہے۔ ایک حکو متی رپوٹ کے مطابق اسکولوں کی آمدن کا57فی صد تدریسی اور 11فی صد غیر تدریسی عملے کی تنخواہوں،10فی صد بلڈنگز کے کرائے، 7فی صد بلوں، 4فی صد مرمت اور 11فی صد متفرق اخراجات کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے جبکہ فیس کا صرف 7فی صد حصہ اسکول کو بچتا ہے۔
لاک ڈائون سے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد متاثر ہوئے ہیں اور خاص طور پر متوسطہ طبقہ کے افراد جن کا روزگار بند ہوگیا ہے اس طبقہ کے 80فی صد افراد کے بچے کم فیس والے نجی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اس لیے اب ان والدین کی اکثریت فیس ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے نجی اداروں نے پہلے ہی 10اور 20فی صد فیس اپنی قومی ذمے داری سمجھتے ہوئے معاف کردی ہے۔ پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی PSRA کے اعداد وشمار کے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا کے 96فی صد نجی تعلیمی اداروں کی کسی بھی کلاس کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ فیس 3500 روپے سے کم ہے۔ ان کی بقاء خطرے میں ہے اور ان اسکولوں سے وابستہ لاکھوں ملازمین بیروزگار ہو چکے ہیں۔ عمارتوں کے مالکان بھی کرایہ کی عدم ادائیگی پر اسکولوں کی عمارات خالی کرارہے ہیں۔ اگر یہ اسکول بند ہوگئے تو خدا نخواستہ صوبے میں تعلیمی بحران پیدا ہونے کا قوی خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختون خوا میں پہلے ہی پچیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں سوال یہ ہے کہ اگر خدا نخواستہ یہ تعداد دوگنی ہوگئی تو یہ لاکھوں بچے کہاں جائیں گے کیونکہ حکومتی اداروں کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو سنبھال سکے۔
دوسری جانب نجی تعلیمی اداروں سے کہا جارہا ہے کہ اپنے تدریسی اور غیرتدریسی اسٹاف کو فارغ نہیں کرنا لیکن المیہ یہ ہے کہ جب تعلیمی ادارے بند ہیں اور ان کی آمدن کے بنیادی ماخذ یعنی فیسیں وصول نہیں ہو رہی ہیں تو مالکان اپنے اسٹاف کو تنخواہیں کہاں سے ادا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دینی مدارس کھل چکے ہیں دیگر پبلک مقامات بھی کھول دیے گئے ہیں تو ایسے میں تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ یقینا ناقابل فہم ہے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ 240دنوں میں سال کا جو کورس مکمل ہوتا ہے اسے آخر پانچ ماہ تک تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد کیونکر پورا کیا جا سکے گا اس حوالے سے حکومت نے تاحال تعلیمی اداروں کو کوئی گائیڈ لائن نہیں دی حالانکہ حکومتی اداروں کو ضائع ہونے والے وقت کے تناسب سے کورسز میں کمی کرکے سالانہ امتحانات اس مختصر کورس کے تحت لینے چاہئیں بصورت دیگر اس کا نقصان طلبہ وطالبات کو برداشت کرنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی اسکولوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کرے جس میں بچوں کی چار ماہ کی فیس ادا کی جائے۔ اس سے 24 لاکھ گھرانوں کو بلواسطہ فائدہ ملنے کے ساتھ ساتھ 2 لاکھ ٹیچنگ ونان ٹیچنگ اسٹاف کو تنخواہوں جب کہ عمارتوں کے مالکان کو کرایہ کی صورت میں ایک بڑا ریلیف مل سکتا ہے لہٰذا توقع ہے کہ حکومت اس اہم مسئلے کی جانب خصوصی توجہ دے گی۔