گزشتہ ہفتے کی طوفانی بارشوں میں کراچی کے ڈوبنے کے مناظر پوری دنیا نے دیکھے۔ غریب علاقے ہوں یا پوش علاقے، کچے مکانات ہوں، مضبوط پختہ عالی شان بنگلے کوئی بارش سے محفوظ نہ رہ سکا۔ پانی گھروں میں داخل ہوگیا اور قیمتی سامان، فرنیچر، پانی کی موٹریں اور کاریں برباد ہو کر رہ گئے۔ سڑکیں، شاہراہیں، گلیاں اور انڈر پاسز دریا اور تالاب کا منظر پیش کرنے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض جگہ کشتیاں چلائی گئیں۔ تمام ہی مارکیٹیں مثلاً بولٹن مارکیٹ، کپڑا مارکیٹ، الیکٹرونکس مارکیٹ، فرنیچر مارکیٹ، صدر کوآپریٹیو مارکیٹ، زینب مارکیٹ، پیپر مارکیٹ، بابر مارکیٹ، شیر شاہ مارکیٹ، حیدری مارکیٹ اور ہول سیل مارکیٹ میں بارش کا پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا دکانوں میں چلا گیا۔ لاکھوں کروڑوں روپے کی مالیت کا کاروباری سامان برباد ہوگیا۔ دکاندار بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہے۔ لوگ زندگی بھر کی محنت اور جمع پونجی سے محروم ہوگئے، کاروباری لوگ اتنے بھاری نقصان کو دیکھ کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ بارش کی تباہ کاریوں اور بربادیوں سے اسپتال تک نہ بچ سکے۔ جناح اسپتال، سول اسپتال، آغا خان اور لیاقت اسپتال سب ہی تالاب بنے نظر آئے۔ البتہ مرکزی حکومت، صوبائی یا شہری حکومت ان میں سے کوئی بھی عوام کی مدد کرتا نظر نہ آیا۔ صرف رفاہی یا فلاحی ادارے ہی بارش میں پھنسے ہوئے عوام کی مدد کرتے نظر آئے۔
پاکستانی معیشت میں کراچی شہر کی بڑی اہمیت ہے یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دسواں بڑا شہر ہے اور ملک کا صنعتی و مالیاتی مرکز ہے، ملک کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں اس کا 20 فی صد حصہ ہے، صنعتی پیداوار کا 30 فی صد یہ شہر پیدا کرتا ہے۔ بیرونی تجارت کا 95 فی صد یہاں کی بندرگاہوں کے ذریعے دنیا تک پہنچتا ہے۔ 80 فی صد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز کراچی میں ہیں۔ آئی آئی چندریگر روڈ کو پاکستان کی وال اسٹریٹ کہا جاتا ہے۔ شیئرز کی خریدوفروخت کی سب سے بڑی مارکیٹ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کراچی میں ہے جسے 2015ء میں کارکردگی کی بنیاد پر سب سے بہتر قرار دیا گیا۔ یہاں 12 صنعتی و کاروباری علاقے ہیں جن میں سائٹ، کورنگی، لانڈھی، ایکسپورٹ پروسسنگ زون وغیرہ شامل ہیں اور مجموعی طور پر 4500 صنعتی یونٹس ہیں۔ یہ شہر ایف بی آر کو کسٹم ڈیوٹی میں 74 فی صد اور سیلز ٹیکس کی مد میں 80 فی صد ریونیو جمع کراتا ہے۔
دنیا حیران ہے کہ کراچی کی اتنی معاشی، کاروباری، تجارتی اور صنعتی اہمیت کے باوجود چند دن کی بارش میں ہر جگہ پانی جمع ہوگیا اور بعض علاقوں میں ابھی تک جمع ہے۔ اصل میں اس شہر کی تباہی و بربادی، بے بسی اور کسمپرسی میں ہر ایک نے حصہ لیا ہے، سب سے پہلے ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے دس سال کے لیے کوٹا سسٹم نافذ کرکے دیہی اور شہری کی تفریق پیدا کی اور کراچی کے شہریوں کو ملازمت سے محروم کیا۔ جنرل محمد ضیا الحق نے اس کوٹا سسٹم میں مزید دس سال کی توسیع کی اور شہری علاقوں کی بنیاد پر ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی۔ جس سے شہری علاقوں میں لسانیت و عصبیت کو فروغ ہوا اور اس کے بعد ٹارگٹ کلنگ، چائنا کٹنگ، بوری بند لاشوں اور بھتا خوری کا کلچر شہروں میں پھیل گیا۔ اس کے نتیجے میں کراچی میں سرمایہ کاری رک گئی، کارخانے اور فیکٹریاں دوسرے شہروں اور ملکوں میں منتقل ہونے لگے۔ پبلک ٹرانسپورٹ لوکل ٹرین اور سرکلر ریلوے جیسی سہولتیں ختم ہوگئیں، اس پر سندھ حکومت نے یہ ستم کیا کہ تمام انتظامی عہدوں اور پولیس میں غیر مقامی لوگوں کو تعینات کیا۔
کراچی کی داستان غم بیاں ختم نہیں ہوپاتی کراچی دنیا کا واحد شہر ہے جس کی زمین بے شمار اداروں میں تقسیم ہے۔ زمین کا بڑا حصہ ڈیفنس اتھارٹی کے پاس ہے اس کے بعد ریلوے ہے، سول ایوی ایشن اتھارٹی ہے، کنٹونمنٹ بورڈ ہے، کراچی پورٹ ہے، افواج پاکستان ہے، طرفہ تماشا یہ ہے کہ مختلف انتظامات کے لیے کے ایم سی یا کے ڈی اے کے بجائے بے شمار ادارے قائم کردیے ہیں
جن میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی شامل ہیں اور ان اداروں کے درمیان کوئی رابطہ یا Coordination نہیں ہے۔ ہر ادارے کی توجہ ترقیاتی کاموں کے بجائے زیادہ سے زیادہ فنڈ کے حصول پر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے زمینوں پر قبضے ہوتے ہیں، پانی کی سپلائی ختم ہوجاتی ہے، سیوریج کا نظام ناکارہ ہوجاتا ہے اور غیر قانونی اور غیر معیاری رہائشی کالونیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
کراچی کی جغرافیائی حیثیت کے باعث یہاں صنعتی و کاروباری سرگرمیوں کی بہت گنجائش ہے۔ امن وامان اور قانون کی حکمرانی ہوجائے تو بے انتہا نجی سرمایہ کاری یہاں ہوسکتی ہے۔ مڈل کلاس میں اضافے کی وجہ سے تجارت، سیاحت اور تفریح سرگرمیوں کی بے انتہا طلب ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام انتظامی معاملات بشمول پولیس ایک شہری حکومت کے ماتحت کی جائیں۔ اسے بااختیار کیا جائے، مناسب ترقیاتی فنڈ دیا جائے، اس سے کراچی ترقی کرے گا اور پاکستان کے جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہوگا اور کراچی وفاقی حکومت کے خزانے میں زیادہ ریونیو جمع کرانے کے قابل ہوجائے گا۔