اے پی سی‘ جماعت اسلامی اور حضرت مولانا

364

نام نہاد بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تو ابھی تک اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) پر متفق نہیں ہوسکیں۔ بقر عید گزر گئی، محرم آگیا اور اب محرم بھی اپنے انجام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن مذکورہ دونوں پارٹیاں حکومت کے خلاف کسی اے پی سی کے موڈ میں نظر نہیں آتیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بارشوں کی وجہ سے بہت زیادہ مصروف ہوگئے ہیں کیوں کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے اور جب زیادہ پانی آتا ہے تو زیادہ تباہی پھیلتی ہے اور جب زیادہ تباہی پھیلتی ہے تو مصروفیت بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس آفاقی فارمولے کے تحت بلاول اِن دنوں بہت مصروف ہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت کے وزرا کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ بارش سے متاثرہ اور تباہ شدہ علاقوں میں موجود رہیں اور اس تباہی سے عبرت پکڑیں۔ یہ عبرت آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں ان کے بہت کام آسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں اے پی سی بے وقت کی راگنی معلوم ہوتی ہے اور بلاول بے وقت کی راگنی الاپنے کو تیار نہیں ہیں۔ رہی مسلم لیگ (ن) تو وہ اور بہت سے کاموں میں اُلجھی ہوئی ہے۔ سب سے اہم کام اس نے یہ کیا ہے کہ عمران حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر ایک وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس میں حکومت کی ناکامی اور نالائقی کا آپریشن کیا گیا ہے اور عوام کو بتایا گیا ہے کہ اگر یہ حکومت برقرار رہی تو معاشی زبوں حالی کے سبب ملک کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ لیگی لیڈروں کا کہنا ہے کہ یہ کام اے پی سی سے بھی زیادہ اہم تھا بلکہ وائٹ پیپر کے اجرا کے بعد اے پی سی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
حضرت مولانا کو دونوں پارٹیوں کے موقف سے اصولی اختلاف ہے، وہ اے پی سی کو حکومت کے خلاف عملی جدوجہد کی راہ میں پہلا قدم قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک پہلا قدم نہ اُٹھایا جائے تو راستہ کیسے طے کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ انہوں نے خود ہی پہلا قدم اُٹھانے کی جرأت کی ہے اور دونوں بڑی پارٹیوں کے بغیر نو چھوٹی جماعتوں کو بلا کر اپنی قیادت میں ایک چھوٹی اے پی سی کر ڈالی ہے۔ اس اے پی سی میں انہوں نے جماعت اسلامی کو بھی دعوت دی تھی لیکن جماعت نے بوجوہ اس میں شرکت سے معذرت کرلی۔ سب سے اہم وجہ تو یہی تھی کہ جماعت اسلامی کوئی چھوٹی جماعت نہیں ہے۔ وہ تنظیمی اعتبار سے ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ وہ محض انتخابات کے دنوں میں فعال نہیں ہوتی بلکہ سارا سال عوام کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے اور اس کا شعبہ خدمت خلق عوام کی خدمت میں مصروف رہتا ہے۔ کورونا کی وبا ہو یا سیلاب اور بارشیں، الخدمت کے کارکن ہر جگہ دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے پہنچتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ حکومت کے خلاف اے پی سی جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں ہے وہ حکومت کو گرانے میں نہیں، سیدھے راستے پر چلانے میں دلچسپی رکھتی ہے تا کہ ملک میں جمہوری عمل مستحکم ہو اور عوام اکھاڑ پچھاڑ کے بجائے ووٹ کے ذریعے حکومت تبدیل کرسکیں۔ جب سے عمران حکومت آئی ہے حضرت مولانا اس کے پیچھے ہاتھ دھوئے بغیر پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی بلا سے عمران خان کی جگہ کوئی کالا چور آجائے لیکن عمران خان کو ہرگز اقتدار میں نہیں رہنا چاہیے۔ وہ تو اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرنے اور ان سے مستعفی ہونے کے حق میں تھے لیکن کسی نے ان کی نہ سُنی۔ حد یہ کہ جس جماعت کا دعویٰ تھا کہ اس کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے وہ بھی اسمبلیوں میں جا کر بیٹھ گئی اور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے لگی۔ خود حضرت مولانا کی جماعت نے بھی ان کی بات نہ مانی اور اسمبلیوں کے جھولے لینے لگی۔ حضرت مولانا خود تو ہار گئے تھے لیکن ان کا صاحبزادہ قومی اسمبلی میں پہنچ گیا ہے۔ وہ بھلا اپنی رکنیت سے کیسے دستبردار ہوسکتا تھا۔ اس لیے حضرت مولانا اسمبلی سے اپنی ہار کا جو بدلہ لینا چاہتے تھے وہ تو ممکن نہ ہوسکا اب وہ مسلسل دو سال سے پیچ و تاب کھارہے ہیں۔ کبھی دھرنا دیتے ہیں، کبھی اے پی سی بلاتے ہیں، کبھی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ ان کے پاس حکومت کی اپوزیشن کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے۔ جب کہ دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیاں خود کو احتساب سے بچانے کی فکر میں لگی ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے اہم مسئلہ خود نواز شریف بھی ہیں جو لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں اور پاکستان میں ان کی جماعت اپنی اور اپنے لیڈر کی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ آصف زرداری بیمار ہیں اور آئے دن ان کے انتقال کی افواہیں بھی اُڑتی رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ احتساب عدالت میں پیشیاں بھگتتے رہتے ہیں۔ بلاول میں لیڈر شپ کا گُن نہیں ہے وہ بیچارا اپنے اندر ہی اُلجھ کر رہ گیا ہے اور پیپلز پارٹی کی توقعات پوری نہیں کرسکا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن حالیہ بارشوں نے اس کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔ کراچی، سندھ بلکہ پورے ملک کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت ہے اسے ایم کیو ایم سے لے کر پیپلز پارٹی تک سب نے بُری طرح لوٹا، نوچا اور کھسوٹا ہے،
اب جب کہ وہ مسائل کے انبار میں سسک رہا ہے تو زبانی ہمدردی کے سوا کوئی اس کا پُرسانِ حال نہیں ہے، لوگ اس زمانے کو یاد کرتے ہیں جب اس شہر کا بلدیاتی نظام جماعت اسلامی کے اختیار میں تھا اور اس نے اسے صحت و صفائی اور امن و سکون کے اعتبار سے دُنیا کا بہترین شہر بنادیا تھا۔ جماعت اسلامی اب بھی اِس شہر کے لیے تڑپتی ہے لیکن اختیار کے بغیر بے بس ہے۔
لیجیے صاحب بات اے پی سی سے چلی تھی اور کہاں نکل گئی۔ آئیے پھر اے پی سی کا ذکر بحال کرتے ہیں۔ حضرت مولانا نے چھوٹی سیاسی جماعتوں کی جو اے پی سی کی ہے اسے ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے کہ اس اے پی سی کے بعد نہ کوئی مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی نہ مشترکہ اعلامیہ یا بیان جاری ہوا اور نہ ہی حضرت مولانا نے میڈیا سے گفتگو میں یہ راز فاش کیا کہ اس مشقِ لاحاصل کا مقصد کیا تھا اور اس سے ملک میں جمہوری جدوجہد کو کیا تقویت حاصل ہوگی۔ جمہوری جدوجہد کا راستہ صرف ایک ہے جس پر جماعت اسلامی چل رہی ہے۔ بے شک یہ راستہ طویل اور صبر آزما ہے لیکن منزل کو آنکھوں سے اُوجھل نہیں ہونے دیتا۔ اگر عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں تو وہ بہت آسانی سے منزل پر پہنچ سکتی ہے۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اُڑنا!
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اور یہی کٹھن منزل جماعت اسلامی سر کرنا چاہتی ہے۔