شہر ڈوب گیا مقدمہ کار سرکار میں مداخلت کا

249

کراچی شہر کی حالت یہ ہے کہ بارش گزرے دس دن سے زیادہ ہوگئے لیکن شہر کی مارکیٹوں میں پانی بھرا ہوا ہے۔ اہم سڑکوں پر پانی ہے درجنوں عمارتوں کے بیسٹمنٹ میں پانی ہے جو عمارتوں کی بنیادوں تک پہنچ کر انہیں رہائش کے لیے مخدوش بنا رہا ہے۔ کورنگی صنعتی علاقے سے بھاری گاڑیوں کا نکلنا ناممکن ہے۔ اس کے بغیر تیار مال کی سپلائی ممکن نہیں ہو رہی۔ ڈیفنس میں ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کی نااہلی پر ان کے دفاتر پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کردیے گئے ہیں اس سے بڑی ڈھٹائی کیا ہوگی۔ لوگوں کے گھروں محلوں گلیوں میں تباہی مچی ہوئی ہے احتجاج بھی نہ کریں۔ حکومت کے پیکیج میں ان جگہوں کے لیے کوئی اعلان نہیں ہے۔ نالوں پر قابض لوگوں کو بسانے کا منصوبہ ہے لیکن بارش کی وجہ سے بے گھر ہونے والے ہزاروں لوگوں کے لیے کوئی اعلان نہیں ہے۔ اور یہ جو کنٹونمنٹ بورڈ والوں نے کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا ہے وہ یہ تو بتائیں کہ سرکار کون سا کام کررہی تھی جس میں مداخلت کی گئی۔ سرکار نے کام نہیں کیا جب ہی تو لوگوں کے گھروں میں پانی آیا ہے۔ ایسی نااہل سرکار کو جیلوں میں ہونا چاہیے تھا۔ ڈی ایچ اے سے اپنے ٹیکسوں کا حساب مانگنا بھی جرم ٹھیرا، اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ بنا ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ڈیفنس والے متاثر ہوئے تو سوشل میڈیا زیادہ متحرک ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ہر جگہ کی نشاندہی کی ہے، اس سوشل میڈیا کی دیگر خرابیوں سے قطع نظر بہت سے فوائد بھی ہیں۔ اسی لیے حکمران اس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی میں لگے رہتے ہیں۔ بھائی اپنی اصلاح کرو، سوشل میڈیا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔