وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کردیا ہے۔ کراچی کے حوالے سے تو کئی ماہ سے وفاق اور صوبہ سندھ میں کھینچا تانی چل رہی تھی لیکن حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی نے صورت حال سنگین کردی اور چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے وفاق اور سندھ کی حکومتیں حرکت میں آئیں اور کراچی کے لیے ترقیاتی، بحالی اور امدادی پیکیج پر متفق ہوئیں۔ اس پیکیج میں خاص بات یہی ہے کہ اس میں سے چار چار سو ارب وفاق اور سندھ دیں گے جبکہ تین سو ارب کے بارے میں ابھی غور ہورہا ہے۔ یوں عملاً 8 سو ارب کا پیکیج ہے۔ وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ اس پیکیج کی رقم سے پانی کی فراہمی، نالوں کی صفائی، تجاوزات کا خاتمہ، سیوریج نظام کی بہتری، کوڑا کرکٹ کی صفائی، ٹرانسپورٹ نظام اور سڑکوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ سندھ حکومت تجاوزات کے خاتمے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والوں کو بسائے گی۔ اس رقم میں سے پانی کی فراہمی کے لیے 92 ارب روپے، سیوریج ٹریٹمنٹ کے لیے 141 ارب روپے، نالوں کی صفائی اور سالڈ ویسٹ منصوبوں کے لیے 267 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ماس ٹرانزٹ، ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ کے لیے سب سے زیادہ رقم 572 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اب جبکہ کراچی پیکیج کا اعلان ہوگیا ہے اس پر واہ واہ سبحان اللہ کے نعرے بھی بلند ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم کے کراچی آتے ہی سندھ حکومت کا کراچی پیپلز پروگرام بھی سامنے آگیا۔ اعلان کیا گیا ہے کہ پیپلز پروگرام میں شامل 5 بڑے منصوبوں کی تکمیل کے بعد کراچی میں پانی کا بحران ختم ہوجائے گا۔ یہ اعلان پہلے بھی کئی مرتبہ کیا جا چکا ہے۔ سندھ حکومت نے برساتی پانی کی نکاسی کے لیے بھی دو منصوبے تیار کیے ہیں جن کے بعد کراچی میں برساتی پانی نہیں ٹھیرے گا۔ یہ منصوبہ بھی دو سالہ مدت کا ہے۔ وفاق اور صوبے کے منصوبے دو سالہ تین سالہ مدتوں کے ہیں اور 3 سو ارب ابھی زیر غور ہیں۔ دو باتیں بڑی اہم ہیں، ابھی کراچی کو کیا ملا۔ اس شہر کو فوری طور پر امدادی پیکیج کی ضرورت ہے۔ دوسری یہ کہ پہلے بھی پیکیج اور منصوبوں کا اعلان ہوا تھا ان کا کیا بنا۔ ان کی رقم کہاں خرچ کی گئی۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کے ختم ہوتے ہی وفاق اور سندھ کی حکومتیں بلدیاتی مسائل کے لیے پیکیجز لے کر آگئیں جبکہ الیکشن کا اعلان کیا جانا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ابھی الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں ہوا لہٰذا ترقیاتی پیکیجز بھی لائے جاسکتے ہیں اور فنڈز بھی جاری کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم تمام ہی منصوبے تین سال اور پانچ سال کے لیے ہیں اس لیے ان پر عملدرآمد تو اگلی بلدیات ہی کریں گی۔ لیکن کراچی یا اس کی حالیہ تباہی سے نہیں نکل سکا ہے۔ سندھ حکومت نے بھی دو تین سالہ پیکیج کا اعلان کیا ہے اور وفاق نے بھی۔ اس وقت بجلی کے بھاری بلوں، ٹیکسوں وغیرہ سے کوئی چھوٹ یا نرمی کے لیے حکومت رقم جاری کرتی تو پتا چلتا کہ کراچی کے عوام کو کس قسم کی رعایت دی جارہی ہے۔ بس ایک بات سامنے آسکی ہے کہ ان دونوں حکومتوں اور ان کے ماہرین نے کراچی کے جن مسائل کی نشاندہی کی ہے کم از کم یہ تو سامنے آگیا کہ کراچی کے مسائل کیا ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دونوں ہی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں، دونوں کو فکر اس بات کی ہے کہ فنڈز کس کے ہاتھ میں ہوں گے، کون خرچ کرے گا، کنٹرول کس کا ہوگا، اب بھی جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پیکیج کا اعلان کردیا ہے کسی خاص بہتری کی تو ان سے امید لگانا غلطی ہوگی۔ اعلانات اور عمل میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اعلانات تو پہلے بھی بہت سے ہوچکے اگر ان سب اعلانات پر عمل ہوجاتا تو کراچی آج دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں سرفہرست ہوتا۔ اعلان کرنے اور یوٹرن لینے کے ماہر تو عمران خان ہیں ان کے اعلانات بھی تو سب کو یاد ہوں گے، ملازمتیں، مکانات، کرپشن کا خاتمہ وغیرہ۔ اس کے بجائے 23 لاکھ لوگ بیروزگار ہو گئے۔ 50 لاکھ مکانات کا وعدہ تھا لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا۔ کرپشن کا خاتمہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی اپنی ٹیم میں کرپشن کے الزام والے یا کرپٹ لوگ بھر چکے ہیں تو ایسے اعلانات کس کام کے۔ جب سب کراچی کی ہمدردی میں آگے بڑھ رہ ہیں تو عالمی بینک کیوں پیچھے رہتا، اس نے بھی اعلان کیا ہے کہ کراچی کے انفرااسٹرکچر پر 10 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ یہ وہی رقم ہے جو سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی مانگی تھی اور گزشتہ دنوں عالمی بینک سے بھی امداد کی اپیل کی تھی۔ اب بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے بتایا کہ یہ دس سالہ منصوبہ ہے اور قرضے کی رقم سے ٹرانسپورٹ، سیوریج، سالڈ ویسٹ اور پانی کے مسائل حل ہوں گے۔ یہ سارے منصوبے پیکیج قرضے اپنی جگہ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان منصوبوں پر عمل کون کرے گا۔ ایسے ایماندار اور صاف ستھرے لوگ اقتدار میں کب آتے ہیں، جو آتا ہے رنگا ہوا ہوتا ہے یا رنگ جاتا ہے۔ اب تو پاکستان میں سی پیک کے سربراہ ہی متنازع ہوگئے ہیں۔ ایسے میں اعلانات کا کوئی فائدہ تو نہیں۔