بھگتو

290

یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہمارے سیاست دان اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو ملک و قوم کی فکر میں دبلے ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی زبان پر عوام کی فلاح وبہبود کا تذکرہ ورد کی طرح ہوتا ہے۔ مگر جب اقتدار میں آتے ہیں تو ملک کے سارے وسائل پر قابض ہوجاتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی ان کی نظر میں بے معنی ہوجاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ الیکشن جیت کر دودھ کے دھلے ہوجاتے ہیں۔
تحریک انصاف میاں نواز شریف، آصف علی زرداری کی حکومتوں کو چوروں اور لٹیروں کا ٹولہ قرار دیتی ہے۔ ابتداء میں تو عوام نے ان کی باتوں پر توجہ دی اور یقین کر لیا کہ عمران خان کی حکومت ان کی خواہشات اور امنگوں کا احترام کرے گی انہیں غربت اور افلاس سے نجات دلائے گی مگر دو سال پورے ہوچکے ہیں کرپشن مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے پر اضافہ ہورہا ہے اور حکومت یہی راگ الاپ رہی ہے کہ اس نے حالات پر قابو پا لیا ہے۔ اور اب وہ مہنگائی اور بے روزگاری پر بھی قابو پا لے گی۔ عوام سوچ رہے ہیں کہ جو حکومت دو برس تک سابق وزیر اعظم نواز شریف پر گرجنے برسنے کے سوا کچھ نہ کرسکی تو اب کون سی توپ چلا لے گی کیونکہ دو برس تک تو توتے کی طرح توپ چلاتی رہی ہے۔ اور بقیہ تین سال تک بھی گولا باری کرتی رہے گی عوام سوچ رہے ہیں کہ جس ملک پر مافیائوں کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ حکومت بے بس ہوکر رہ جائے اور مہنگائی عوام کی زندگی اجیرن کردے وہاں حکومت کچھ نہیں کرسکتی جو کچھ کرنا ہے مافیائوں ہی کو کرنا ہوتا ہے۔ پٹرول مافیا نے پٹرول کے نرخ اپنی مرضی سے مقرر کیے مگر وزیر اعظم عمران خان ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے رہے چینی مافیا نے چینی پر کنٹرول کرکے اپنی مرضی کی قیمت مقرر کردی اسی طرح گندم مافیا نے گندم کا بحران پیدا کرکے عوام کے ہاتھ کا لقمہ بھی چھین لیا۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت بے بسی کی تصویر بنی رہی میڈیا نے شور شغب کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے ایک کمیشن مقرر کردیا۔ چینی مافیا نے قیمت میں مزید اضافہ کردیا کیونکہ نا اہل حکومت کے اختیار میں کمیٹیاں بنانے اور کمیشن تشکیل دینے کے سوا کوئی اور اختیار نہیں ہوتا۔ حالانکہ عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ جب حکومت کسی مسئلے کو دفن کرنا چاہتی ہے تو عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے کمیٹی اور کمیشن کی مٹی ڈال دیتی ہے۔ اور اب تک تحریک انصاف کی حکومت اس کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ اس کی نظر میں خرابی کی وجہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں۔ مگر عوام جان چکے ہیں کہ جمہوریت دراصل لوٹ مار کا نظام ہے حکومت کسی کی بھی ہو اس کو لوٹ مار ہی کرنا ہے۔ مگر تحریک انصا ف نے تو کمال ہی کردیا اس نے لوٹ مار کی باقاعدہ کمیٹیاں بنائیں ہیں۔ اور ملک وقوم کو مزید بد حال کرنے کے لیے کمیشن تشکیل دیے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت بھی کرپشن میں ملوث ہے۔ تو پھر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو مورد الزام کیوں ٹھیرایا جائے اب تو یہ حال ہے کہ عوام تحریک انصاف سے جان چھڑانے کے لیے بددعائیں دے رہے ہیںکیونکہ وہ جانتے کہ حکومت بدلنا ان کے اختیار میں نہیں وہ ووٹ نہ بھی ڈالیں تو ان کا ووٹ ڈال دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ووٹ نہ ڈالنا بھی ایک جرم ہے۔ قومی جرم ہے۔ اور الیکشن کمیشن قوم کو ایسے جرم کا مرتکب کرنا نہیں چاہتا۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے دور حکومت میں بھی کرپشن ہوتی تھی مگر عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے بچے ہوئے تھے۔ یہ کیسا تماشا ہے کہ پہلے گندم فروخت کی جاتی ہے پھر خریدی جاتی ہے اور عوام کو خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ گندم برآمد کی خبر نے ذخیرہ اندوزوں کے ہوش اڑا دیے ہیں ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ اور قوم کو یہ نوید بھی سنائی جارہی ہے کہ گندم کی قیمت میں سو روپے کی کمی واقع ہوگئی ہے۔
عدالت عظمیٰ کی حیرانی بجا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں جو بیان بازی کے سوا کچھ نہیں کرتے اگر مارکیٹ میں گندم کی قیمت سو روپے کم ہوگئی ہے تو روٹی پانچ روپے سے سات روپے کیوں ہوگئی۔ اور نان دس سے پندرہ روپے میں کیوں فروخت ہورہا ہیں یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ مہنگائی ہو تو اس کے اثرات عوام بھگتیں۔ مگر مہنگائی میں کمی ہوجائے تو عوام کو اس کے ثمرات سے محروم کردیا جاتا ہے۔ سیانوں نے سچ ہی کہا ہے کہ ببول کے درخت سے انگور حاصل نہیں کیے جاسکتے۔