بھنگ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے

305

شاعر نے کہا تھا
حیات نو ہی کرے جنبشیں عطا ان کو
نظر سے جام پلائے گئے جو بھنگ بھرے
تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے لب دم معیشت کو حیات نو عطا کرنے کے لیے بھنگ بھرے جام پلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ معاملہ کوکین سے بھنگ پر آگیا ہے۔ کوکین کے مقابلے میں بھنگ بہت سستا نشہ ہے، زمیں بوس معیشت بھی جسے افورڈ کرسکتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ منفی معاشی شرح نمو کی وجہ سے معیشت کی فوری بحالی کا امکان نہیں۔ اس وقت کم ازکم 25ملین نوجوان بے روزگار مایوس پریشان اور ناراض ہیں۔ ان کا رویہ جارحانہ ہے۔ وہ جرائم کی طرف بھی متوجہ ہوسکتے ہیں۔ بھنگ نوجوانوں کی ان تمام پریشانیوں کا حل ہے۔ بی بی سی کے مطابق امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک ڈاکٹر نے ایک چار سال کے بچے کو جسے غصہ بہت آتا تھا بھنگ کے بسکٹ تجویز کیے۔ بچے کے والد کا کہنا ہے کہ بچپن میں وہ بھی اسی طرح کے مرض میں مبتلا تھے، بڑے ہوئے تو چرس کا استعمال شروع کر دیا جس سے انہیں ’’سکون‘‘ ملنا شروع ہو گیا اور بیوی کے ساتھ رویہ بھی بہتر ہو گیا جبکہ اس سے پہلے بیوی کے ساتھ ان کا سلوک غصے والا ہوتا تھا۔ صاحبو یہ راز درون خانہ ہیں۔ ایک نشئی ہی یہ علاج سمجھنے اور تجویز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صد شکر کہ اہل پاکستان کو بھی حکومتی سطح پر یہ سہولت میسر آگئی ہے۔
اتھرو وید میں بھنگ کو زمین پر اُگنے والے پانچ مقدس پودوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے جس کی پتیوں میں ایک محافظ فرشتہ موجود ہے۔ اسے ایک ایسا پودا بھی قرار دیا گیا ہے جو کیف آور خوش کن اور غموں سے نجات دینے والا ہے۔ گمان کیا جاسکتا ہے کہ بھنگ معیشت سے نوجوانوں کو روزگار ملے یا نہ ملے سکون ضرور ملے گا۔ پچاس لاکھ گھر ایک کروڑ نوکریوں کے سبز باغ جب بھنگ کی ہری ہری پتیوں سے ہم آہنگ ہوں گے تو ہر طرف سکون ہی سکون ہوگا۔ ایک پیالہ بھنگ مہنگائی کی ٹینشن ختم، بے روزگاری کی الجھن دور۔ ٹکٹ کٹائو، لین لگائو، قوم کو بھنگ پلائو! کیا سوچ ہے! کیا آئیڈیا ہے! کیا ویژن ہے! کیا لیڈر ہے! باہر سے لوگ بھنگ پینے پاکستان آئیں گے تو ڈالر بھی ساتھ لائیں گے۔ جلد ہی آپ کو اس طرح کے جملے سننے کو ملیں گے ’’بھنگ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل بھنگ جسے اندیشہ زوال نہ ہو
ایک بھنگ کے نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ ’’انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کرسکتا ہے، اس کی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کے لیے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے‘‘۔ وہ ایک اسپتال پہنچا اور بتایا کہ وہ مرنے کے بعد اپنی آنکھیں کسی نابینا کے لیے عطیہ کرنا چاہتا ہے۔ ضروری ٹیسٹ وغیرہ لیے گئے۔ کاغذات پر دستخط کا مرحلہ آیا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ڈاکٹروں نے دریافت کیا تو بھنگی فلسفیانہ انداز میں بولا ’’سرجی جِسے بھی میری آنکھیں لگانا اسے پہلے سے بتا دینا کہ بھنگ کے دو پیالے لگانے کے بعد ہی یہ کھلتی ہیں‘‘۔ معیشت کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھنگ کی کاشت کا فیصلہ بھی لگتا ہے کئی پیالے پینے کے بعد کیا گیا ہے۔
بھنگ پینے کے بعد عوام بھی حکومت اور فوج کے ساتھ ایک پیج پر آجائیں گے۔ حکومتیں میٹرو یا سڑکیں بنانے، کارخانے لگانے اور ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنے سے نہیں پیزا شاپ کھولنے اور بھنگ کی کاشت سے ایک پیج پر آتی ہیں۔ کیا خوب ترقی ہے ایک طرف پیزا شاپ دوسری طرف بھنگ کی کاشت۔ فوج اور سویلین کا ایسا تال میل!! دو لارج پیزا کے ساتھ بھنگ کا بڑا پیالہ فری۔ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے بعد معاملہ اپنے بچوں کو پیزا شاپ کھلوانے اور قوم کے بچوں کو بھنگ پر لگانے تک آگیا ہے۔ ایک نیازی نے بنگلا دیش بنایا دوسرا نیازی ’’بھنگ لا‘‘ دیش بنارہا ہے۔ نشہ کرنے والوں کی فکر، سوچ اور عمل نشے کے گرد گھومتا اور نشے ہی سے جنم لیتا ہے۔ ایک بھکاری کا بہت بھاری پرائز بانڈ لگ گیا۔ کسی نے پوچھا ’’اتنی رقم کا کیا کروگے۔ بولا ایک عالی شان مسجد بنوائوں گا‘‘۔ سوال کیا گیا ’’پھر کیا کروگے‘‘ بولا ’’اس کی سیڑھیوں پر اکیلا بھیک مانگا کروں گا‘‘۔
ٹھنڈے میٹھے انٹرویو ایک طرف، وزیراعظم عمران خان کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ وعدے کے مطابق نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کرسکے۔ اس کے ازالے کے لیے وہ ہمہ وقت سوچتے رہتے ہیں۔ مرغی انڈہ معیشت، بکری معیشت، بھینس معیشت کے آئیڈیاز ان کی اسی سوچ کے عکاس ہیں۔ لیکن نوجوان اس طرف کم ہی مائل ہوئے کیونکہ ان میں پڑتی تھی مشقت زیادہ۔ بھنگ میں یہ پرابلم نہیں ہے۔ بھنگ کے پتے توڑیں، پیسیں، گھوٹیں اور بیس روپے گلاس، بیس روپے گلاس۔ بے روزگاری ختم، مہنگائی کا مسئلہ حل۔ شادباد منزل مراد۔ املی، آلو بخارے کا شربت اور گنے کارس پی پی کر قوم بے زار ہوگئی تھی اب جگہ جگہ بھنگ کے شربت کی ریڑھیاں بھی نظر آئیں گی۔ قوم خمار سکون، خوشی اور خواب آور کیفیت میں رہے گی۔ مہنگائی کے رانڈ رونے اس کیفیت میں بھی جاری رہیں گے تاہم نوعیت بدل جائے گی۔ ’’حد ہوگئی مہنگائی کی کل تک بھنگ کے پتے چار سو روپے کلو مل رہے تھے اب بارہ سو روپے کلو قیمت ہوگئی ہے۔ قیامت ہے قیامت‘‘۔
بھنگ ملک کی معیشت میں تب ہی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے جب بھنگ کے پتوں کا استعمال صرف شربت اور بھنگ کے پکوڑوں تک محدود نہ رہے۔ بھنگ کی نئی نئی پراڈکٹ متعارف کرائی جائیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں جہاں ہم امریکا سے مدد لیتے ہیں اس شعبے میں بھی لے سکتے ہیں۔ ایک امریکی جریدے ڈینورپوسٹ (Denver Post) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن اورکولوریڈو میں بھنگ کی فروخت کو قانونی شکل دیے جانے کے بعد مقامی سوئٹس اور بیکرز کمپنیوں نے ’’بھنگ کے شوقین صارفین‘‘ کی تفریح طبع کے لیے بھنگ سے جب مٹھائیاں، چاکلیٹ، کیک اور لولی پاپ تیار کرنے شروع کیے تو نشے کے شوقین امریکیوں میں ان مصنوعات کو بے انتہا پزیرائی ملی۔ مقامی دکان داروں، بیکری مالکان اور سوئٹ شاپس کے ورکرز نے بتایا کہ ان کی دکانوں پر ’’بھنگ کی میٹھی پروڈکٹس‘‘ کے لیے عوام نے یلغار کر دی تھی اور صرف پہلے دن ہی 10 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی مٹھائیاں، پیسٹریاں اور لولی پاپ فروخت ہوئے تھے۔
دوسال ہوگئے ہیں حکومت کسی بھی کام میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔ ایک عالم بے خودی ہے جس میں الل ٹپ فیصلے کیے جاتے ہیں اور پھر بغیر سوچے سمجھے ان کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر وقت پاس کیا جارہا ہے۔ جنگل میں ایک ہاتھی بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا ایک بندر کا وہاں سے گزر ہوا اس نے ہاتھی سے کہا ’’بھائی نشہ چھوڑو دیکھو جنگل کتنا حسین ہے‘‘۔ ہاتھی کو بات پسند آئی وہ سگریٹ چھوڑ کر بندر کے ساتھ چل دیا۔ آگے ایک چیتا بیٹھا ہیروئن پی رہا تھا۔ بندر نے کہا ’’بھائی چیتے نشہ چھوڑو دیکھو جنگل کتنا حسین ہے‘‘۔ چیتے نے بھی نشہ چھوڑا اور ہاتھی اور بندر کے ساتھ ہوگیا۔ کچھ دور ایک شیر بیٹھا چرس پی رہا تھا بندر نے اس سے کہا ’’بھائی شیر نشہ چھوڑو دیکھو جنگل کتنا حسین ہے‘‘ یہ سن کر شیر نے بندر کو دو تھپڑ رسید کیے اور بولا ’’سالا روز بھنگ پی کر ساری رات جنگل کے جانوروں کو لیے پھرتا ہے‘‘۔