اے پی سی سے حکومت نہیں جاتی

258

مسلم لیگ ن کے رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ20ستمبر کو ہونے والی اے پی سی حکومت کو ہٹانے کے لیے ہو گی ۔ اس میں تمام اپوزیشن جماعتیں شرکت کریں گی ۔ شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم رہے ہیں ۔ انہوں نے عجیب بات کہی کہ پاکستان میں کبھی شفاف انتخابات نہیںہوئے۔ موجودہ حکمران گھٹیا لوگ ہیں ۔ سابق وزیر اعظم ذمے دار آدمی ہیں ۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن اس بیان میں ایک بہت بڑی بات وہ کہہ گئے ہیں کہ پاکستان میں کبھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے ۔ تو پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم غیر شفاف انتخابات کے نتیجے میں بنے ۔ اور اگرغیر شفاف انتخابات کے نتیجے میں آنے والے موجودہ حکمران گھٹیا لوگ ہیں تو سابقہ غیر شفاف حکمرانوں کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ ویسے تو پی ٹی آئی کی کابینہ اور ارکان اسمبلی میں بڑی تعداد مسلم لیگیوں کی ہے ۔ یعنی یہ گھٹیا لوگ بھی مسلم لیگ اور پی پی پی سے موجودہ حکمران پارٹی میں آئے ہیں ۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اے پی سی حکومت کو ہٹانے کے لیے کیوںبلائی جا رہی ہے ۔ حکومت کو ہٹا کر ان ہی لوگوں میں سے کچھ کو اقتدار میں لانا ہے جو پاکستان میں بہت سی خرابیوں کے ذمے دار ہیں اور جن کی وجہ سے پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ لگا تو پھر یہ حکمراں کیا برے ہیں ان میں بھی تو موجودہ اپوزیشن جماعتوں کے بہت سے لوگ شامل ہیں ۔ جہاں تک اے پی سی سے حکومت جانے کا تعلق ہے توشاہد خاقان عباسی بتائیں کہ پاکستان میں کونسی اے پی سی کے نتیجے میں کون سی حکومت گئی۔ حکومت گرانے بلکہ پی ٹی آئی کو حکومت میں آنے سے روکنے کے مواقع اس اپوزیشن نے دیے ۔ انتخابات کے دوران منظم طریقے سے تعاون نہیں کیا ۔ ایک دوسرے کی کاٹ کرتے رہے ۔ اس زعم میں رہے کہ ہم اکیلے جیت رہے ہیں ۔ لیکن شاہد خاقان کی پارٹی بھی یہ بھول گی کہ پاکستان میں کبھی انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو2018ء کے انتخابات شفاف کیسے ہو جائیں گے ۔ پھر جب وزیر اعظم کے انتخاب کا مرحلہ آیا اس وقت عددی اعتبار سے پی ٹی آئی کی پوزیشن خراب تھی لیکن اپوزیشن ، نیب ، ایف آئی اے اور مقدمات کے دبائو میں آ گئی اور پی ٹی آئی کو آنے دیا ۔ نیب ، ایف آئی اے اور مقدمات نے اب بھی پیچھا نہیں چھوڑا ۔زرداری صاحب ایسے مواقع پر نوٹوں کی بوریاں کھول دیتے تھے وہ بوریاں کہاں چلی گئیں۔ ان سیاستدانوں نے بڑی عمر تک سیاست اور حکمرانی کر لی ہے ۔ ملک کے نظام میں بھی خرابی کر لی ہے ۔ اب ان کے پاس آخری موقع ہے ۔ انہیں جیل میں مرنا ہے یابہتر علالت پر لیکن مرنا ضرور ہے تو پھر کوئی اچھا کام کر کے مریں ۔ جس اسٹیبلشمنٹ کی شکاات دن رات نجی محفلوں میں کرتے ہیں کبھی کبھی ریکارڈ پر بھی لے آتے ہیں ۔ کبھی غصے میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کر ڈالتے ہیں ۔ا یک دفعہ سب اس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحد ہو جائیں اور اس کو سیاست سے بے دخل کر دیں ۔شاید اس کے نتیجے میں بھی کسی کی موت ہو جائے ان لوگوں نے تو سیاست بہت کر لی لیکن اگریہ کام کر گئے تو اگلی نسلیں آزاد ہوں گی اور قوم دعائوں دے گی ۔ ورنہ اپنے حصے کی بد دعائیں اورانجام کے لیے تیار رہیں ۔