کیا یہ ممکن ہے؟

266

ملک کے سیاسی معاملات کا فیصلہ کرنے والی قوتوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی کارکردگی جانچنے کے لیے دونوں جماعتوںکو پانچ پانچ سال حکومت کرنے کی کھلی چھوٹ دینے کا تہیہ کرلیا تھا اور دونوں جماعتوں کی خراب کارکردگی اور عوامی مسائل سے چشم پوشی کو نظر انداز کرکے انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا موقع فراہم کیا۔ مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پاک کے سوا کچھ نہ نکلا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مقتدر قوتیں پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ اس بار ایسی حکومت کو اقتدار میں لایا جائے جو اب تک ایوان اقتدار کے خواب دیکھتی رہی ہے۔ یوں تحریک انصاف کو حکومت دینے کا فیصلہ کیا گیا مگر بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ والا نتیجہ نکلا۔ کرپشن پہلے سے زیادہ بڑھ گئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو جینا دوبھرکردیا۔ شنید ہے کہ فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کو بھی اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی حکومت کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے اور ایسے با اثر افراد کی فہرست تیار کی جارہی ہے جن کا ماضی بے داغ اور کردار قابل رشک رہا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ ایسے افراد بغیر کسی لالچ اور تنخواہ کے قوم کی خدمت کریں گے۔ گویا اس حقیقت کا اظہار کردیا گیا ہے کہ ملک میں صادق اور امین کی کمی نہیں۔ ان کی صداقت اور امانت داری کا فیصلہ کسی عدالت نے نہیں کیا بلکہ ان کی امانت اور صداقت کی گواہی ان کے کردار نے دی ہے۔ یہ لوگ ایسے عہدوں پر فائز رہے ہیں جہاں ملک کے وسائل ہڑپ کرنے اور قومی دولت کے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مگر ان لوگوں نے پوری دیانت داری سے اپنا فرض نبھایا اور ایسی کوئی حرکت نہیں کی جو ان کی دولت میں اضافے کا باعث بنتی۔ سو یہ توقع بجا ہے کہ ایسے افراد پر مشتمل حکومت بنائی گئی تو ملک وقوم کے مسائل پر با آسانی قابو پایا جاسکے گا۔ بعض حلقوں کی جانب سے اس رائے کو بھی اہمیت دی جارہی ہے کہ بڑی برائی کے بجائے چھوٹی برائی کو قبول کرلینا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس رائے کو اہمیت دینے والوں کا خیال ہے کہ چھوٹی برائی سے مراد مسلم لیگ نواز ہے میاں نواز شریف کو اسی لیے علاج کے لیے لند ن بھیجا گیا ہے کہ وہ اس ملک کے حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ اور وقت آنے پر اپنی سیاسی رائے کا اظہار کرسکیں شاید اسی لیے تحریک انصاف کی حکومت میاں نواز شریف کے خلاف پروپیگنڈا کررہی ہے کہ وہ سیاست میں متحرک اور فعال ہورہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا سیاست میں فعال ہونا اس رائے کی تصدیق ہے کہ چھوٹی برائی سے مراد میاں نوازشریف ہی ہیں۔ اور یہ توقع درست ہے کہ الیکشن سے قبل میاں نواز شریف پاکستان تشریف لے آئیں گے تاکہ مسلم لیگ کے کارکن بھی متحرک اور فعل ہوجائیں۔ مگر یہ سب کیسے ہوگا۔۔۔؟ کیوں کر ہوگا۔۔؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر جو قوتیں امریکا سے کسی بندے کو بلا کر پاکستانی عوام پر مسلط کر سکتی ہیں ان کے لیے یہ کام کچھ بھی مشکل نہیں۔ اگر وہ قوتیں الطاف حسین کو عبرت کا نشان بنا سکتی ہیں تو میاں نواز شریف کو اٹھا کر گلے بھی لگا سکتی ہیں۔ عدالتوں سے میاں نوازشریف کے حق میں فیصلے آ سکتے ہیں۔ عدالتیں پہلے سختی کریں گی اور پھر نرمی دکھائیں گی۔ ناراض لیگی رہنما خوش آمدید کہ سکتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ پاکستان کی سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ قومی حکومت بھی تشکیل دی جاسکتی ہے۔ اس سوچ سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جسے ٹانگ مار کر گرایا جائے اسے سہارا دینے کا حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ یوں بھی سیاست امکانات کے دائرے میں گھومتی ہے اور اپنا رخ کسی بھی جانب کر سکتی ہے۔