نشان پاکستان… سید علی گیلانی

375

حکومت پاکستان نے کشمیری عوام کے نمائندہ قائد اور بزرگ سیاسی رہنما سید علی گیلانی کو آزادی کشمیر کی جدوجہد میں ان کی بے مثالی خدمات کے اعتراف میں پاکستان سے سب سے بڑے سول اعزاز ’’نشان پاکستان‘‘ سے نوازا ہے۔ اس سلسلے میں ایوان صدر میں ایک پُروقار تقریب ہوئی جس میں صدر عارف علوی سے حریت کانفرنس کے نمائندوں نے سید علی گیلانی کی جانب سے یہ اعزاز وصول کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سید علی گیلانی کی زندگی سر تا پا جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس حوالے سے ان کی شخصیت اتنی عظیم ہے کہ نشان پاکستان ان سے منسوب ہوکر خود اس کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ سید علی گیلانی بجائے خود ’’نشان پاکستان‘‘ ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سچے اور کھرے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان ان کے دل میں بستا ہے اور یہ دل مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر میں دھڑک رہا ہے۔ سید علی گیلانی 29ستمبر 1929کو مقبوضہ کشمیر کی تحصیل بانڈی پورہ کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ عہد طفولیت ہی میں ان کے والدین نقل مکانی کرکے سوپور آگئے۔ گیلانی صاحب نے ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کی۔ پھر تعلیم کی تڑپ انہیں لاہور لے گئی جو برصغیر کی تقسیم سے قبل تعلیمی سرگرمیوں کا زبردست مرکز تھا اور ریاست جموں و کشمیر کے طلبہ اکثر اسی شہر کا رخ کرتے تھے۔ گیلانی صاحب نے طویل عرصے تک لاہور میں قیام کیا نیشنل کالج لاہور سے سندِ فراغت حاصل کی جبکہ کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے بھی اسناد حاصل کیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز تعلیم و تدریس سے کیا اور کم و بیش بارہ سال تک سرکاری اسکولوں میں پڑھاتے رہے۔ اس دوران جماعت اسلامی سے ان کا تعارف ہوا اور وہ جماعت اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہونے لگے۔ جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کرلی۔ جماعت اسلامی نے جب انہیں تنظیمی ذمے داری سونپی تو انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفا دے کر خود کو جماعت اسلامی کے لیے وقف کردیا۔ اور طویل عرصے تک جماعت اسلامی کے ہمہ وقتی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے اس کے ساتھ ساتھ وہ کشمیر کی سیاست میں بھی دلچسپی لیتے رہے ان کی سرگرمیاں حکومت کی نظر میں کھٹکنے لگیں اور انہیں 28 اگست 1962ء کو پہلی مرتبہ گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں 13 مہینے تک جیل میں رکھا گیا۔ وہ رہا ہوئے تو ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہوچکا تھا اور کشمیر پر بھارت کے جارحانہ قبضے کے خلاف وہ کھل کر میدان میں آگئے۔ انہیں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا اس طرح انہوں نے کم و بیش چوبیس سال جیلوں میں گزارے، اب وہ برسوں سے گھر میں نظر بند ہیں لیکن ان کے اصولی اور بنیادی موقف میں کوئی لچک پیدا نہ ہوئی۔ گیلانی صاحب ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے جارحانہ قبضے کو کھلے عام للکارتے رہے۔ ان کا موقف تھا اور آج بھی وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ وہ کشمیر میں مسلح جدوجہد آزادی کو روکنے کے لیے خود اقوام متحدہ میں گیا تھا اور اس نے وہاں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا تھا۔ اس بنیاد پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں متعدد قرار دادیں منظور کی ہیں اور ان قراردادوں پر عمل درآمد کرکے ہی کشمیر کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ گیلانی صاحب 15 سال تک ریاست جموں و کشمیر کی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں، وہ 1972، 1977 اور 1987 میں حلقہ سوپور سے ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تاہم 30 اگست 1989ء کو انہوں نے اسمبلی سے استعفا دے دیا تھا۔ 7 اگست 2004ء کو گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی کے ساتھ ایک تحریری مفاہمت کے بعد اس کی رکنیت سے استعفا دے دیا کیونکہ وہ
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو تیز کرنا چاہتے تھے۔ گیلانی صاحب نے تحریک حریت جموں و کشمیرکی بنیاد رکھی اور مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد آزادی کو حق بجانب قرار دے دیا۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو ایک طویل اور کھلا خط لکھا جس میں اس پر واضح کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اس لیے آپ کی ذمے داری ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھائیں۔ گیلانی صاحب نے ریاست حیدر آباد، جونا گڑھ اور مناوادر پر بھارت کی فوج کشی کو بھی قطعی ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے بھارتی حکام پر واضح کیا کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات آزادانہ رائے شماری کا بدل نہیں ہیں۔ انہوں نے بھارتی حکام پر واضح کیا کہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر ریاستی انتخابات میں مسلسل حصہ لیتی رہی ہے لیکن اس نے عملی میدان میں اتر کر دیکھ لیا کہ انتخابات کے نام پر ریاست کے عوام کو بہت بڑا دھوکا دیا جارہا ہے۔ 1987ء کے ریاستی انتخابات میں بھارت نے جس بڑے پیمانے پر جبر و تشدد اور جعل سازی سے کام لیا اس سے ریاستی عوام کا انتخابات پر اعتماد بالکل ختم ہوگیا ہے اور ا ب وہ صرف آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
گیلانی صاحب مسئلہ کشمیر میں پاکستان کو سب سے اہم فریق سمجھتے ہیں۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے اس موقف کو بالکل درست سمجھتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اگر شہ رگ دشمن کے قبضے میں ہو تو پاکستان تادیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ کشمیر کی آزادی اور اس کا پاکستان سے الحاق پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ گیلانی صاحب ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیتے ہیں ان کے اس موقف میں کبھی لچک پیدا نہیں ہوئی۔ بھارتی حکمرانوں نے انہیں زیر دام لانے کی بہت کوشش کی
مقبوضہ کشمیر کے بہت سے سیاسی لیڈر بھارت کی ترغیب اور فریب میں آگئے لیکن بھارت گیلانی صاحب کے موقف میں ذرا سی بھی نرمی پیدا نہ کرسکا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں جب کشمیر کے بارے میں یوٹرن لیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے حل کی چار نکاتی تجویز پیش کی تو گیلانی صاحب نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور 2005ء میں جب وہ بھارتی وزیر اعظم کی دعوت پر دہلی آئے اور پاکستانی ہائی کمیشن میں کشمیر ی لیڈروں سے بھی ملاقات کی تو اس موقع پر سید علی گیلانی اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان انتہائی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ مالانے سے بھی انکار کردیا۔ جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں سری نگر تا مظفر آباد آنے کی دعوت دی گئی تو گیلانی صاحب نے اسے دھوکا قرار دیتے ہوئے مظفر آباد آنے سے انکار کردیا۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ گیلانی صاحب کا موقف بالکل درست تھا۔ پاکستان میں عمران خان کی حکومت آنے کے بعد گیلانی صاحب اس حکومت سے بھی مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہیں وہ عمران خان کو خط بھی لکھ چکے ہیں جس میں انہوں نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کی زبردست تعریف کی ہے اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اس خطاب کی روشنی میں بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر ماضی میں کیے گئے تمام دو طرفہ معاہدوں سے دست بردار ہوجائیں اور کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے لگائی گئی خار دار باڑ کے خلاف اقوام متحدہ سے رجوع کریں۔ لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جب بھارت نے گزشتہ سال 5 اگست کو مقبوضہ ریاست کی آئینی حیثیت کو ختم کرکے اسے اپنے اندر ختم کرنے کا اعلان کیا اور پورے مقبوضہ علاقے کو لاک ڈائون کرکے دنیا سے اس کا رابطہ منقطع کردیا تو گیلانی صاحب نے مسلم امّہ کو ایس او ایس کال دی اس کا خصوصی مخاطب پاکستان تھا۔
یہ کال بھی رائیگاں گئی اور کسی نے بھی کشمیریوں کے حال زار پر توجہ نہ دی بلکہ اس کے برعکس بعض عرب ممالک نے بھارتی حکمرانوں کو ایواڑ دے کر ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا۔ اب پاکستان نے ایک سال گزرنے کے بعد اپنے نقشے میں ریاست جموں وکشمیر کو شامل کرکے اس پر اپنا حق جتایا ہے لیکن اس نقشے کی اہمیت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب اقوام متحدہ بھی اسے تسلیم کرے اور اپنی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ علاقے میں آزادانہ و منصفانہ رائے شماری کو یقینی بنائے۔ حکومت پاکستان نے سید علی گیلانی کی جد وجہد اور ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں نشان پاکستان دے کر بھی ایک اچھا قدم اٹھایا ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن یہ اعزاز اسی وقت بامعنی ہوسکتا ہے جب حکومت گیلانی صاحب کی تجاویز پر بھی عمل کرے اور سفارتی سیاسی اخلاقی اور عملی جد وجہد کے ذریعے کشمیر کی آزادی کو ممکن بنائے۔ کشمیر کی آزادی جہاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو جہادی قوتیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف مصروف عمل ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خود پاکستان کی فوج اس سلسلے میں اپنا رہنما کردار ادا کرے۔ سید علی گیلانی صاحب اس بات کے حامی ہیں کہ پاکستان کی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں پیش قدمی کرنی چاہیے کیونکہ کشمیری عوام پاکستانی فوج کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔ کشمیری عوام کا یہ موقف ہے کہ اگر بھارت غیر قانونی طور پر کشمیر پر فوجی قبضہ کرسکتا ہے تو پاکستان اس قبضے کو چھڑانے کے لیے کوئی عملی کارروائی کیوں نہیں کر سکتا؟