حبیب الرحمن
اداروں کا اپنے اپنے کام چھوڑ کر ایسے کام اختیار کرلینا جن سے ان کا کہیں سے کہیں تک پیشہ ورانہ لینا دینا بنتا ہی نہیں اب اس قدر عام ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کے عام لوگ ہی نہیں، مقتدر ادارے بھی ان کی جانب کھل کر باتیں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے وہ سارے محکمے اور ادارے جن کا کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا یا ان کے کاموں میں سہولتیں پیدا کرنا ہوتا ہے، ان کی جانب سے عوام اتنے عدم تحفظ اور مشکلات کا شکار ہونے لگے ہیں کہ اگر قانون نافذ کرنے والے اہل کار کسی چوک چوراہے یا گلیوں بازاروں میں دکھائی دے جائیں تو ان کے دل سینوں سے نکل کر کنپٹیوں میں دھڑکنے لگتے ہیں۔
بہت شروع میں پاکستان کے مقتدر اداروں پر کڑی تنقید چند افراد، کوئی ایک آدھ سیاسی پارٹی یا اس کے سربراہ ہی کرتے نظر آتے تھے لیکن اب یہ باتیں کافی حد تک عام ہوتی جا رہی ہیں۔ عام آدمی یا سیاستدانوں اور ان کی جماعتوں کا علاج تو ہمارے مقتدر اداروں کے پاس بہت ہی ’’خوبصورت‘‘ شکل میں موجود تھا۔ آدمی کو غائب کر دینا، زمین و آسمان کو بھی اس کی گرد کا پتا نہ ہونے دینا، اسے اپنا ہم زبان بنا لینا یا پھر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینا۔ رہے سیاستدان تو ان کی دم میں اتنے نمدے کس دینا کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہ رہیں بلکہ ان کی جماعت کی عزت بھی اس قابل نہ رہنے دینا کہ اس کے ہمدرد، حامی اور ووٹر ملک میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل رہ سکیں۔ ان ساری باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں کوئی ایک عوامی رہنما اور سیاسی پارٹی اس قابل ہی نہیں رہی کہ وہ عوام کی نظروں میں شک و شبہات سے پاک ہو اور عوام پورے صدقِ دل سے اس کو اپنا نجات دہندہ اور ملک کا خیر خواہ مان سکیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس، جو انہوں نے پاکستان کی ایجنسیوں کے بارے میں، سیکورٹی اسٹاک ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کی مبینہ جبری گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران دیے، اس قابل تو نہیں کہ ان کو فخر کے ساتھ تحریر کیا جا سکے لیکن ان کو درج کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ آئین و قانون سے ماورا اب ایسی بہت ساری باتیں ہونے لگی ہیں جو نہ صرف زباں زدِ عام ہوتی جا رہی ہیں بلکہ اب دنیا میں بھی ان باتوں کا مذاق بنایا جانے لگا ہے۔ اسلام آباد کی عدالت میں چلنے والے مقدمے کی رپورٹ جو جسارت میں شائع ہوئی ہے وہ اپنی جگہ خود ایک کالم ہے اور اس میں درج ایک ایک لفظ ان ساری باتوں کا اعادہ کرتا نظر آرہا ہے جو ایک عرصے سے پاکستان کے بہت سارے سیاستدان اور کئی سماجی حلقے کہتے آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر اعظم کو بتائیں کہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ادارے پراپرٹی کے کام میں مصروف ہیں اور وزارتوں کے افسران اپنے دفاتر میں بیٹھ کر پلاٹوں کے سودے کرتے نظر آتے ہیں۔ ساجد گوندل کے اٹھائے جانے کے سلسلے میں چلنے والے مقدمے کے دوران عدالت کے ریمارکس تھے کہ 4 دنوں سے صرف میٹنگیں ہی ہو رہی ہیں ان کو بازیاب کرانے کی کوششیں سامنے نہیں آرہیں۔ پاکستان میں لا پتا کر دیے جانے کی کارروائیاں کوئی آج سے نہیں ہو رہی ہیں۔ پھر یہ کہ جب تک عدالتیں از خود نوٹس لیتے ہوئے ایسے افراد کی رہائی کا کوئی حکم جاری نہیں کرتیں، اس وقت تک ان کی رہائی بھی عمل میں آتی دکھائی نہیں دی جو ایک بہت تشویشناک بات ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان میں شکایات تو بڑھتی ہی جا رہی ہیں، لیکن جو عدالت اور اس کے چیف جسٹس ایجنسیوں کے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں، خود ان کا عالم یہ ہے کہ وہ عوام کو انصاف دلانے میں بہت بری طرح ناکام ہیں۔ سیکڑوں ایسے مقدمات جو سورج کی طرح روشن شہادتیں اور ثبوت رکھتے ہیں، عدالتیں ان ثبوتوں کو ماننے سے انکار کرتی نظر آتی ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ، بلدیہ کراچی کی فیکٹری کی آتش زدگی، ساہیوال میں سر عام قتل کیے جانے والے والدین اور حال ہی میں اچکزئی کی ایک کانسٹیبل کو بیدردی کے ساتھ کچل کر ہلاک کردینے کے واقعے کو عدل ثبوت قرار دیکر رہائی کا حکم جیسا فیصلہ خود اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ کسی بھی ادارے اور کسی بھی مقتدر حلقے کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو خوب اچھی طرح نظر آرہا ہے لیکن اپنی اپنی آنکھوں کے شہ تیر کوئی بھی دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان میں جب بھی کوئی جرم ہوتا ہے یا کوئی بھی فرد، سیاسی جماعت یا ادارہ اپنی حدود سے باہر نکل جاتا ہے، اس کو اول اول نظر انداز کردیا جاتا ہے اور شاید یہ سمجھ لیاجاتا ہے کہ فرد یا ادارہ اپنی اصلاح از خود کر لے گا۔ اگر جرم کو پہلے ہی مرحلے پر روک لیا جائے تو وہ کبھی پرورش پا ہی نہیں سکتا۔ جو باتیں اب عدالت سے لیکر ہر لب پر عام ہوتی جا رہی ہیں اس کو پہلے مرحلے پر ہی روک لیا جاتا تو آج پاکستان کے وہ حالات نہیں ہوتے جو اب ہیں لیکن بزدل سیاستدانوں اور ابن الوقت عدالتیں مصلحتوں کی غلامی کے بجائے آئین و قانون کی پاسداری پر کمر بستہ ہوجاتیں تو پورا پاکستان اپنی اپنی حد سے بے حد ہوا نظر نہ آتا۔ اسی بات کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ منیر نیازی نے کچھ اس طرح کہا ہے کہ
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری