کراچی کے 9/11 کے 8 برس

268

عجیب اتفاق ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو ایک سانحہ ہوتا ہے اس نے دنیا کی شکل بدل ڈالی، سیاست ملکوں کے تعلقات، دوستی دشمنی، تجارت سب کچھ 9/11 کے تناظر میں ہونے لگا اور اب بھی دنیا اس ڈرامے کے نتائج بھگت رہی ہے آج امریکی صدر اعتراف کر رہے ہیں کہ پینٹا گون اسلحہ فروخت کرنے کے لیے دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکاتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اس واقعے کی آڑ میں امریکا اور سامراج نے دنیا بھر میں اپنے لیے ممکنہ خطرات کا صفایا کر ڈالا ۔ لیکن اسی تاریخ کو 2012 میں کراچی کا 9/11 وقوع پذیر ہوتا ہے۔ بے حسی اور بے ضمیری کے 8 برس گزرنے کے باوجود مجرم آزاد ہیں اور جو کچھ مقدمات اور جے آئی ٹی، اعترافات انکشافات ہوئے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چند لوگ ضرورمقدمے کی لپیٹ میں آئیں گے لیکن اس سارے سانحے کے پیچھے رہنے والے لوگ بچ جائیں گے کیونکہ وہ اس طرح نامزد ہی نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے ان کا نام بھی نہ آئے۔ یہ دوسرا سانحہ ہو گا۔ ساری دنیا جن حقائق سے واقف ہے حکومتی ایجنسیاں، عدالت، پولیس اور حکومتیں ان کی جانب سے آنکھیں کر کے بیٹھے تھے۔ اب کیا وہ لوگ پکڑے جائیں گے؟ جن کو 25 کروڑ کا بھتہ پہنچتا۔ کیا وہ لوگ قانون کی گرفت میں آئیں گے جو 260 انسانوں کے اصل قاتل ہیں اور ان کے قتل کو اتفاقی حادثہ قرار دیتے رہے۔ کیا حکومت سندھ اور وفاقی حکومت سے پوچھا جائے گا کہ متاثرین کو ملنے والی امدادی رقوم کیوں دبائے بیٹھے ہوئی ہے۔ امریکی 9/11 کو تو دنیا نے بھگتا ہے کراچی کے سانحے کو پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔اگر مجرموں کے لیے الگ قانون اور چھوٹے آلۂ کاروں کے لیے پھانسی کے پھندے ہی کو قانون بنانا ہے تو پھر ایک مرتبہ اعلان کر دیا جائے کہ اس ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلے گا لوگ کم از کم لاٹھیاں ہی مضبوط کرنے میں لگ جائیں گے۔ اگر یہ سانحہ ہو گیا تو پاکستانی قوم دو چار برس نہیں کئی عشروں تک اس غلطی کی سزا بھگتے گی۔ اور لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی کا عنوان بن جائے گی اور حالات پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ابھی وہ بڑی عدالت جاتی ہے جہاں سب کو انصاف ملے گا۔