ماضی کی عظمت ایک زبردست نشہ ہے۔ جو پاکستانیوں کو پسند ہے، ترکی ٹی وی سیریل کا سحر سب پر غالب ہے، اور وہ اس نشے کی کافی مقدار فراہم کرتے ہیں۔ یہ ڈرامے ہمیں ماضی کے سحر میں جکڑے ہوئے، ہمارے حال اور مستقبل سے غافل رہنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترکی آج اپنے گلیوں کے کتوں کے لیے پاکستان کے بچوں کے مقابلے میں سو گنا اعلیٰ تحفظ کا نظام رکھتا ہے۔ لیکن ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ نہ ہم ان کے طور طریقوں سے کچھ سیکھنے کو تیار ہیں۔
ترکی کے اسٹریٹ ڈاگ پروٹیکشن سسٹم میں ایسے کم از کم 5 اسباق موجود ہیں جن سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ پہلا سبق یہ کہ یہ پروگرام دراصل کتوں کے مفاد کے لیے ہے، نہ کہ اس کام کو منظم کرنے والی تنظیموں کے لیے۔ دوسرا یہ کہ یہ حقائق اور اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ تیسرا، یہ کہ یہ پروگرام کتوں کی فعال طور پر پناہ گاہوں، علاج، کھانا اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ چوتھا یہ کہ، کتوں کے تحفظ کے لیے صرف ایک جامع قانون ہے، 36 متضاد قوانین نہیں بنائے گئے ہیں۔ اور آخری سبق یہ کہ ترکی، اپنے ڈاگ پروٹیکشن مراکز چلانے یا ڈاگ پروٹیکشن ایس او پیز بنانے کے لیے یونیسیف، بل اینڈ میلنڈا یا یو ایس ایڈ سے کوئی گرانٹ قبول نہیں کرتا ہے۔
پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ بچوں کے تحفظ کا نظام بچوں کے تحفظ کے لیے نہیں بنایا گیا ہے، یہ مکمل طور پر اس کے بجٹ کو کھانے والے بیورو، کمیشنوں اور اتھارٹیوں کی خود نمائی اور کے لیے وقف ہے۔ ایک کیس میں یہ بھی دیکھا گیا کہ ایک صوبائی چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی نے اپنا پورا سالانہ بجٹ اپنے عہدیداروں کے لیے کاروں اور فرنیچر کی خریداری پر صرف کردیا۔ ترکی نے اس بیوروکریٹک ڈھانچے کو مستعدی اور موثر طریقے سے کم کیا ہے، وہ یہ کام اپنی وزارتوں اور مقامی میونسپل کمیٹیوں کے توسط سے انجام دیتا ہے۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
ترکی میں ہر گلی کے کتے کے کان میں ایک ڈیجیٹل چپ لگی ہوتی ہے۔ جس میں اس کا ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے۔ جس میں کتے کے انفرادی شناختی نمبر (ٹریکنگ کے لیے)، اس کی رجسٹریشن تاریخ، اس کے معائنہ کی تاریخ اور ویکسی نیشن کی تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس، پاکستان میں 58 فی صد بچوں کا پیدائشی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ کیا کوئی ایسے بچے کی حفاظت کرسکتا ہے؟
ترکی میں کتوں کے تحفظ کا نظام ان سرکاری ٹیموں کی بنیاد پر چلتا ہے جو اسٹریٹ ڈاگ کو فعال طور پر تلاش کرتے ہیں، انہیں ایسی پناہ گاہوں میں لے جاتے ہیں جہاں کتوں کو نہلایا جاتا ہے، ان کو ٹیکہ لگایا جاتا ہے، کھانا دیا جاتا ہے اور انہیں محفوظ پناہ گاہ فراہم کی جاتی ہے۔ پاکستان کے اپنی ہی خدمت اور خود نمائی کرنے والے کمیشن اور اتھارٹیز، اس کے برعکس دفاتر کی تعمیر اور کاریں حاصل کرنے اور اپنے لیے گرانٹ طلب کرنے پر توجہ دیتی ہیں۔ پاکستان میں (پنجاب کے علاوہ) کہیں بھی زیادتی کے شکار بچوں کے تحفظ کے لیے ایک بھی پناہ گاہ نہیں ہے۔ سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی نے تو ڈھٹائی اور بے شرمی سے یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’وہ بچوں کے تحفظ کے کسی مراکز کے قیام یا انتظام کا ذمے دار نہیں ہے‘‘۔ یہی حال اسلام آباد اور دیگر تینوں صوبوں کا بھی ہے۔
ترکی میں کتوں کے تحفظ کی واحد قانون سازی کے برعکس، پاکستان بچوں کی حفاظت سے متعلق 36 متضاد قوانین کے بوجھ سے دبا ہوا ہے، ہر نئے قانون نے اس بوجھ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کیا پاکستان اپنے بچوں کے لیے درج ذیل بنیادی قوانین پر اتفاق نہیں کرسکتا؟ بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور دست دازی سخت جرم ہے۔ (اگر ترکی میں کسی پالتو جانور کو آوارہ چھوڑنے پر ایک ہزار سات سو پینتالیس ڈالر جرمانہ ہوسکتا ہے تو، یقینا پاکستان میں بچوں کو بے گھر کرنے اور زیادتی کرنے پر اسی طرح کے جرمانے کیے جاسکتے ہیں)۔ سولہ سال سے کم عمر بچے کو کسی بھی قسم کی گھریلو، تجارتی یا صنعتی چائلڈ لیبر میں شامل کرنا ممنوع ہو۔ 16 سے 18 سال کی درمیانی عمر کے بچے اچھی طے شدہ شرائط میں صرف غیر مضر کام انجام دے سکتے ہیں۔ 18 سال سے کم عمر کی شادی ممنوع قرار دی جائے۔
ہر بچہ 16 سال کی عمر تک لازمی تعلیم حاصل کرے۔ بچوں کا بھیک مانگنا اور سڑکوں پر زندگی گزارنا ممنوع ہو۔ کوئی بھی اسکول یا ’مدرسہ‘ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی، پر عمل درآمد کیے بغیر کام نہیں کرے گا۔
پاکستان میں ایکٹ منظور ہونے کے باوجود، حکومت زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی (زرا) کے قیام کی ذمے داری سے پہلو تہی کررہی ہے، جب کہ اسی ادارے کا ایک اہم مقصد ایک قومی ڈیٹا بیس اور ملک گیر ہیلپ لائن بنانا بھی تھا۔ اگر ہم واقعی اپنے بچوں کی حفاظت چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم بچوں کے تحفظ کے نظام کو نئے سرے سے تشکیل دیں۔ غیر فعال کمیشنوں اور اتھارٹیوں کو ختم کریں۔ ترکی کا ’’ڈاگ پروٹیکشن سسٹم‘‘ ہمارے سیکھنے کے لیے ایک بہترین نمونہ ہوسکتا ہے۔