جب آپ ایک خاص آہنگ کے ساتھ عرصے سے بلند آواز میں ایک خاص بات پر زور دے رہے ہوں، پورے معاشرے کے لیے ایک معیار مقرر کررہے ہوں، اس معیار پر پورا نہ اُترنے والوں کو ’’تُن‘‘ کر رکھ رہے ہوں اور پھر خود اس معیار کے برعکس عمل کررہے ہوں تو معاملہ ’’ہونے یا نہ ہونے‘‘ کا نہیں رہتا ہے، آپ سچے ہیں یا جھوٹے، آپ ایمان دار ہیں یا کرپٹ معاملہ اس کا نہیں رہتا بلکہ لوگ اس معیار پر آپ کو بھی تُلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس شاہراہ سے آپ کو بھی گزرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جو آپ نے دوسروں کے لیے بنائی ہے۔ یہ رویہ تو گھروں میں بھی نہیں چلتا کہ آپ بچوں کو جلد سونے کی تلقین کررہے ہوں اور خود رات کے دو ڈھائی بجے تک نیٹ فلیکس میں موویز دیکھتے رہتے ہوں۔ تب جلد ہی بچے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ اپنے رویے سے اظہار کرتے ہیں کہ پاپا آپ منافقت کررہے ہیں۔ یہ تو پورے ملک کا معاملہ ہے۔ پچیس تیس کروڑ لوگ آپ کی منافقت، آپ کے قول وفعل کے تضاد اور دوعملی کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ کس کس کو چپ کرائیں گے اور کب تک۔ حقیقت چھپانے سے نہیں چھپتی۔ کسی نہ کسی طور سامنے آکر رہتی ہے۔
ایک بادشاہ کے سر پر سینگ نکل آیا۔ اس زمانے میں بندوں کو اٹھانے کا طریقہ متعارف نہیں ہوا تھا لہٰذا بادشاہ ہر ماہ اس حجام کا سر قلم کردیتا تو جو اس کے بال کاٹتے ہوئے سینگ کو دیکھ لیتا۔ ایک مرتبہ ایک مسکین صورت حجام بادشاہ کا ارادہ بھا نپ کر پیروں میں گر گیا۔ وہ آہ وزاری کی کہ بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ ہر ماہ بلاوجہ کے خون خرابے سے بادشاہ بیزار بھی ہوگیا تھا دوسرے حجام نے وعدہ کیا کہ حضور مر جائوں گا مگر آپ کا راز کسی سے نہیں کہوں گا، بادشاہ نے حجام کی جان بخش دی۔ حجام نے وعدہ تو کرلیا لیکن اس کے اندر ایک احمد نورانی چھپا بیٹھا تھا۔ راز برداشت کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوکر رہ گیا۔ آخر جنگل میں جا نکلا اور ایک اندھے کنویں میں منہ ڈال کر خوب چلایا ’’بادشاہ کے سر پہ سینگ۔ بادشاہ کے سر پہ سینگ‘‘۔ پیٹ کا اپھار نکلا تو اسے تسلی ہوئی۔ گھر جاکر سکون کی نیند سوگیا۔ بادشاہ بھی خوش حجام بھی خوش۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ایک دن ایک لڑکا شہر کے چوک پر کھڑا بانسری بجا رہا تھا۔ خلقت حیرت سے سن رہی تھی۔ بانسری میں سے آواز آرہی تھی۔ بادشاہ کے سر پر سینگ۔ بادشاہ کے سر پر سینگ۔ بانسری سے نکلے سر پوری ریاست میں پھیل گئے۔ آج کل اس بانسری کا نام سوشل میڈیا ہے۔
آپ دوسروں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ دوسروں کو درجہ کمال پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ لوگوں کو خو بصورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ ذراسی بد صورتی بھی آپ کو گورا نہیں۔ کسی کے چہرے پر ایک کیل مہاسا بھی آپ کو برداشت نہیں۔ آپ کے ہم نوا میڈیا کے ڈھولچی اور قاضی بھی اسی محدب عدسے سے کیل مہاسے کو دیکھتے ہیں، جو آپ نے انہیں عطا کیا ہے۔ جس سے ایک کیل، ایک مہاسا بھی پہاڑ نظر آتا ہے۔ آپ کی جارحانہ دید میں وہ بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ آپ حامل کیل مہاسا کو کان سے پکڑ کر باہر نکال دیتے ہیں لیکن جب آپ کا اپنا چہرہ کیل مہاسوں سے بھر جاتا ہے تو آپ لوگوں کو یقین دلانے لگ جاتے ہیں کہ ان سے کچھ نہیں ہوتا۔ پھر آپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کا یقین کیا جائے۔ ہم آپ کا یقین کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں اس دنیا میں ہر جگہ دوہرے معیار ہیں۔ ہم دوہرے معیار کے ساتھ گزارا کرسکتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ دوہرے معیار میں اعتماد نہیں رہتا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کو معاشرے کے تنائو اور فیصلوں کی فکر نہیں ہے آپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ خود ہی اپنا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم آپ کے نہیں رہتے۔
ایک بااثرگروہ کی طرف سے دوسرے گروہوں کا انکار کیا جاتا ہے جب کہ وہ کام ایک ہی کررہے ہوں تو بااثر گروہ زیادہ عرصے ملامت سے بچا نہیں رہتا۔ آپ کی وجہ سے دوسروں کے گھر خاکستر ہوجائیں، آنکھ کے جگنو بجھ جائیں، خوشیوں کی جگہ ویرانے مقدر ہوجائیں تو پھر وہ آپ کے زوال کے خواہاں ہوجاتے ہیں۔ آپ کی کامیابیاں انہیں اپنا منہ چڑاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ محلے میں اچانک کسی کا طرز زندگی تبدیل ہونے لگے، وہ مہنگے لباس پہننے لگے، جس کو بائک بھی میسر نہ تھی لینڈ کروزر میں گھومنے لگے، عالی شان گھر بنوانے لگے تو وہ اہل محلہ جو کل تک اس کے رفیق اور دم ساز تھے آپس میں سو سو سوال کرنے لگتے ہیں کہ ’’اتنا پیسہ اچانک کتھوں آگیا، حرام دا تے نئیں‘‘۔ ایک محدود آمدنی والا اگر کروڑوں روپے کا مکان بنوائے تو لاکھ اس کے ماتھے پہ ’’ھذا من فضل ربی‘‘ کا طغرہ لگوا لے سوال تو پھر بھی اٹھتے ہیں۔ سوال تو پھر بھی کیے جاتے ہیں۔
انگریزی کا ایک محاورہ ہے طاقت بگاڑتی ہے اور بے پناہ طاقت بیڑہ غرق کردیتی ہے۔ مزاج میں بادشاہت آجاتی ہے اور بادشاہ کے متعلق شیخ سعدی فرما گئے ہیں ’’بادشاہ ایک بازار ہے جہاں وہی مال لے جایا جاتا ہے جس کی خریدو فروخت ہوتی ہے‘‘۔ بادشاہ ملک کا محافظ ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب افسر شاہی کی محض نچلی سطح بدنام تھی۔ پھر کوئی اوپر بھی بدنام ہونا شروع ہوا۔ ایک ادارہ تھا جسے کچھ کہنا تو درکنار ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنا بھی غداری سمجھا جاتا تھا۔ لوگ خود اس آنکھ کے دشمن ہوجاتے تھے۔ پھر لوگوں کو احساس ہونا شروع ہوا کہ آنکھ بھی اسی نشے کی خوگر ہورہی ہے جس کا الزام اب تک دوسروں پر لگایا جاتا رہا ہے لیکن پھر بھی دل مانتا نہیں تھا۔ دل کے بہلاوے نے یہ جملہ تراشا ’’کون کرپٹ نہیں ہے‘‘۔ اب صورت حال برعکس ہے۔ عوام سے کہا جائے کہ محترم قوت، محترم بادشاہ گر کرپٹ نہیں ہیں۔ یہ سب جھوٹی رپورٹیں ہیں تو عوام کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے جس ادارے کے متعلق کسی کو سچ بولنے کی جرأت نہیں اس کے متعلق جھوٹ کون بولے گا۔
کسی پندار شکستہ کا بھرم رہ تو گیا
اب یہ بات اور کہ خود قیمت پندار گری
جب ادارے تضادات کا شکار ہوجائیں اور یہ اصرار بھی کیا جائے کہ ان تضادات پر بات نہ کی جائے ان کا احترام کیا جائے تو ملک کی قوت مدافعت کمزور پڑنے لگتی ہے۔ ضمیر نقار خانے کا توتی بن جاتا ہے۔ تب دشمن کو حملہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایسی صورت حال میں کسی ایک شعبے کی تطہیر منافقت ہے جب سسٹم اپنی تمام تر توانائی کھو بیٹھا ہو۔ اس ملک کے بے پناہ توانائی کا حامل ہونے کا اعتراف سب کرتے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا اس ملک میں بے پناہ توانائی ہے مگر سیاست دانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔ اب سیاست دانوں کا نام کم اور بہت کم لیا جاتا ہے۔ اب ذمے دار کسی اور کو قراردیا جاتا ہے جسے آپ بھارت کی سازش کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کیونکہ اس سازش کو مواد آپ مہیا کررہے ہیں۔ ورنہ آپ کے باب میں جہاں بھارت کی ان گنت سازشیں ناکام ہوئیں یہ بھی ناکام ہوجاتی۔ تضادات سے بھرے ہوئے اس سسٹم میں صفائی پہاڑ کی چوٹی سے آغاز ہونی چا ہیے۔ برف سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی پر گرتی ہے۔
وہ تمام لوگ جو کرپشن کررہے ہیں، جن کے پاس کرپشن کا پیسہ ہے بہلول کا واقعہ ذہن میں رکھیں۔ بادشاہ نے خوش ہوکر بہلول کو اپنے دستر خوان سے نہایت قیمتی اور اعلیٰ کھانے دیے۔ بہلول نے وہ سب کے سب کتوں کے آگے ڈال دیے۔ ایک صاحب نے دیکھا تو کہا ’’کیا غضب کرتے ہو، بادشاہ کی دی ہوئی نعمتیں کتوںکو کھلا رہے ہو‘‘۔ بہلول نے اسے انگلی سے چپ کراتے ہوئے کہا ’’خاموش رہو اگر کتوں کو پتا چل گیا یہ ایسے حاکم کا کھانا ہے جو (اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کے خزانے سے امیر ہوا ہے) تو وہ یہ کھانا کھانا چھوڑ دیں گے‘‘۔
بول اے بے سروسامانیٔ گلشن کچھ بول
خلقت شہر طلب کرتی ہے حصہ اپنا