عمارت کی تباہی ۔ ذمے دار کون؟؟

178

کراچی کے علاقے اللہ والا ٹائون میںچار منزلہ رہائشی عمارت زمین بوس ہو گئی ۔ یہ گٹر اور بارش کا پانی کھڑا رہنے سے ہونے والا پہلا بڑا حادثہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ ابھی تحقیقات تو نہیں ہوئی لیکن جس طرح کراچی میں بارش میں پانی آیا ۔ عمارتوں کی بنیادوں کے قریب ۔ سڑکوں کے کنارے ، گلیوں میں او رخالی پلاٹوں میں کھڑا ہو گیا اور اب تک واپس جانے کا نام نہیں لے رہا ۔ اس سے تو لگتا ہے کہ کورنگی میں عمارت کی تباہی کا ایک بڑا سبب یہ پانی بھی ہے ۔ اگر یہ سبب نہ بھی ہو تو بھی سیوریج کا تیزابیت سے بھر پور پانی بنیادوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ اور آج کل کراچی کی بہت سی عمارتوں کی بنیادوں کے ساتھ گٹر کا پانی کھڑا ہے ۔ کے ڈی اے کے انجینئرز کو ان تمام عمارتوں کا سروے کرنا چاہیے کہ کوئی عمارت مخدوش تو نہیں ۔ یہ تو چھوٹی عمارت تھی تو ہلاکتیں کم ہوئی ہیں کراچی تو کثیر المنزلہ عمارتوں کا جنگل ہے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی مہر بانی ، بلڈرز کی چمک اورحکومت سندھ کی ملی بھگت سے غیر قانونی تعمیرات اور چائنا کٹنگ بھی ہوئی ہیں ۔ اس کے علاوہ کراچی کے پانی کے قدیم راستوں اور قدرتی نالوں پر بھی تعمیرات نے خرابیاں پیدا کی ہیں ۔ بیشتر ادارے اور حکام یہ سوچ رہے ہیں کہ آئندہ ایسی بارش نہیں ہو گی توکئی برس کے لیے ان کی خرابیاں چھپ جائیں گی ۔ لیکن جو خرابیاں سیوریج اور ڈرینج کے نظام میں آ چکی ہیں ان کی موجودگی میں یہ ممکن ہے کہ ایک عام سی بارش بھی ایسی ہی تباہی لے آئے ۔ رہایشی عمارتوں کا سروے کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ معاملہ صرف مخدوش عمارت کا نہیں ہے بلکہ شہری اداروں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ کہاں کہاں شہری سہولیات کے مطابق تعمیرات ہیں اور کہاں کہاں ان سہولیات کا خیال نہیں رکھا گیا کیونکہ اس وجہ سے بھی عمارتوں کی تباہی اور خرابی ہوتی ہے ۔ جہاں تک چار منزلہ عمارت کی تباہی کا تعلق ہے اس بات کا پتا لگانا کوئی مشکل نہیں کہ پلاٹ رہایشی ، تجارتی تھا یا چائنا کٹنگ اور اس کے نقشے کتنی منزل کے منظور ہوئے تھے اور غلطی کہاں ہے ۔ اس معاملے میں اس عمارت نے بہت سی راہیں سجھائی ہیں حکومت سنجیدگی سے انہیں حل کرے ورنہ کوئی بڑا حادثہ بھی ہو سکتا ہے ۔