سرد جنگ کے زمانے میں امریکا نے دو مختلف عالمی تجارتی نظام وضع کیے اور چلائے۔ ایک نظام کھلا تھا جس میں دنیا کے کسی بھی ملک سے تجارتی روابط رکھنا بالکل درست تھا۔ یہ تجارتی نظام کھلے بازار کی معیشت کے اصول کی بنیاد پر استوار تھا اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1995 میں عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کی تشکیل کا ذریعہ بنا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد 23 ممالک کے درمیان طے پانے والا تجارتی معاہدہ ’’جنرل ایگریمنٹ آن ٹیرفز اینڈ ٹریڈ‘‘ (گیٹ) اب اتنی وسعت پاچکا ہے کہ اس کے ارکان کی تعداد 164 ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکا نے 2001 میں اس معاہدے میں سرد جنگ کے حریف چین کو خوش آمدید کہا۔
دوسرا تجارتی معاہدہ زیادہ وسیع بھی نہ تھا اور قدرے غیر معروف بھی رہا۔ اس کا بنیادی مقصد جدید ترین ٹیکنالوجیز کو سابق سوویت یونین اور اس کے حلیفوں تک پہنچنے سے روکنا تھا۔ ’’کو آرڈینیٹنگ کمیٹی آن ملٹی لیٹرل ایکسپورٹ کنٹرولز‘‘ (کونکوم) کے نام سے طے پانے والے اس معاہدے کے تحت آزاد دنیا نے سابق سویت یونین اور اس کے اتحادیوں کو ٹیکنالوجی کے محاذ پر اچھا خاصا کمزور کیا۔ اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکا یہی سب کچھ چین کے معاملے میں بھی کرنا چاہتا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ماہ قبل چینی کمپنی ہواوے کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ کوشش یہ تھی کہ اسمارٹ فونز اور جی فائیو نیٹ ورک کے لیے ناگزیر سمجھے جانے والے سیمی کنڈکٹرز کی برآمدات روکی جائیں۔ امریکا نے جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، جاپان اور آسٹریلیا پر زور دیا کہ وہ ہواوے سے کاروبار روک دیں۔ صدر ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو چین سے نکال کر وطن واپس لانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل امریکا اور چین کے درمیان دو سال تجارتی جنگ چلی جس کے نتیجے میں امریکا کے لیے چین کی برآمدات پر ٹیکس (یعنی درآمدی ٹیکس) 3 فی صد سے بڑھاکر 20 فی صد کردیا گیا۔
صدر ٹرمپ کی صدارتی میعاد شروع ہوتے ہی ماہرین نے اندازہ لگانا شروع کردیا تھا کہ امریکا اب چین کے ساتھ معاشی مواقع میں شراکت برقرار رکھنا چاہتا ہے یا اُس سے الگ ہوکر اپنی معیشت کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے۔ چین کی معیشت کو اب حریف کے طور پر لیا جارہا ہے۔ چین سے تجارت کے حامی اور مخالف دونوں ہی گروپ ٹرمپ انتظامیہ میں فعال رہے ہیں مگر اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ چین سے معاشی سطح پر اشتراکِ عمل ختم کرکے اُسے الگ تھلگ کرنے اور باقی دنیا کو اپنے ملاکر سامنے آنا چاہتا ہے۔
واشنگٹن کے پالیسی ساز اب چین کو الگ تھلگ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں مگر یہ کھیل ہے بہت خطرناک۔ سابق سوویت یونین بہت حد تک بند ملک تھا۔ اس کی معیشت ترقی پزیر تھی جبکہ چین جدید خطوط پر کام کرنے والا خاصا ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کی معیشت تیزی سے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کا رکن ہونے کی رعایت سے چین آج پوری دنیا میں کھل کر تجارت کر رہا ہے۔ وہ سب سے زیادہ برآمدات اور سب سے زیادہ درآمدات والا ملک ہے۔
امریکا پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت سے مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی اور چین احساسِ ذمے داری کے حامل اسٹیک ہولڈر کے طور پر ابھرے گا۔ ایسا نہ ہوسکا۔ چین نے ڈبلیو ٹی او کے اصولوں کی پاس داری میں ڈھیل دکھائی۔ صدر شی جن پنگ کے عہد میں چینی کاروباری اداروں پر ریاستی تصرّف غیر معمولی حد تک بڑھ گیا۔ امریکا نے چین کے حوالے سے جو نئی حکمت ِ عملی ترتیب دی ہے اُس کی دستاویزات میں شکوہ کیا گیا ہے کہ چین نے کھلے بازار کی معیشت کے اصولوں کو دنیا کی بہتری کے بجائے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے بروئے کار لانے پر زیادہ توجہ دی ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایک بڑے ٹریڈنگ پارٹنر کو یوں الگ تھلگ کرنے اور ناکام بنانے کی مہم مکمل کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ سرد جنگ میں ٹیکنالوجی کی برآمدات کو کنٹرول کرنے کا مکینزم یا معاہدہ اس لیے کامیاب تھا کہ مغربی دنیا میں نظریات اور معیشت دونوں کے معاملے میں بھرپور ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ اختلافات اگر تھا بھی تو چند ایک چھوٹے موٹے معاملات میں۔ دیوارِ برلن کے گرائے جانے کے بعد جرمنی اور امریکا کے درمیان روس کو آپٹک فائبر کیبلز فراہم کرنے کے حوالے سے اختلاف رونما ہوا تھا۔ سرد جنگ کے دور میں سابق سوویت یونین کو جدید ترین سویلین اور ملٹری ٹیکنالوجی سے دور رکھنے کے معاملے میں امریکا اور یورپ کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید ترین ٹیکنالوجیز کے حوالے سے چین کے ارادے خطرناک ہیں مگر پھر بھی اُسے دبوچ کر ایک طرف نہیں ہٹایا جاسکتا۔ مغرب کے بہت سے آئی ٹی اور الیکٹرونک ادارے اہم پرزوں کی رسد کے لیے چین پر غیر معمولی حد تک انحصار کرتے ہیں۔ اب تک اسمارٹ فونز کی اسمبلنگ کا کوئی متبادل دریافت یا تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔ مغربی اداروں نے چین میں اپنی پیداوار دگنی کردی ہے۔
امریکی اتحادیوں کے لیے معاشی معاملات سرد جنگ کے زمانے کے مقابلے میں بہت پیچیدہ ہیں۔ یورپ اور جاپان کو سابق سوویت یونین کی طرف سے لشکر کشی کا خطرہ تھا مگر پھر بھی وہ سوویت بلاک سے زیادہ تجارت نہیں کرتے تھے۔ سابق سوویت یونین پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں دیگر خطوں پر زیادہ اثر انداز نہ ہوتی تھیں۔ چین کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ وہ عالمی تجارتی نظام سے اس قدر جُڑا ہوا ہے کہ اگر اس پر پابندیاں عائد کی گئیں تو بہت سے ممالک خطرناک حد تک متاثر ہوں گے۔
چین اس وقت امریکا اور فرانس کے بعد جرمنی کا تیسرا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ جاپان اور کینیڈا کے لیے وہ دوسرا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔ آسٹریلیا کی جتنی تجارت اس وقت چین کے ساتھ ہے، چین کے بعد کے پانچ ممالک سے ہونے والی تجارت کا مجموعی حجم اُس سے کم ہے۔ فائیو جی نیٹ ورک کے معاملے میں دنیا کا مدار ہواوے پر ہے۔ آئی ٹی اور ٹیلی کام سیکٹر میں جدت اور ندرت کے حوالے سے بھی بہت حد تک چین ہی پر مدار ہے۔
سابق سوویت یونین عالمی تجارت پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ چین کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ چین اپنے خلاف غیر منطقی اور بلا جواز نوعیت کے اقدامات (پابندیاں وغیرہ) کی صورت میں امریکا اور دیگر ممالک کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرسکتا ہے۔ معدنیات اور چند دوسرے شعبوں میں بنیادی خام مال کی فراہمی کے حوالے سے چین بہت اہم ہے۔ کورونا کی وباء کے دوران ماسک اور دیگر میڈیکل سپلائیز کی نصف سے زائد رسد چین کی طرف سے تھی۔ اگر چین کو الگ تھلگ کردیا جائے تو درجنوں ممالک کے لیے انتہائی نوعیت کی معاشی الجھنیں پیدا ہوں گی اور بحرانی کیفیت میں معاملات میں مزید بگڑیں گے۔
ہدف پزیری کے خوف سے امریکا اب چین پر انحصار گھٹانے کی طرف مائل ہے۔ چین کے عزائم تشویش ناک سہی مگر اُسے آسانی سے محض پابندیوں کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ پچاس سال قبل امریکا عالمی معیشت میں کلیدی کردار کا حامل تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اُس کے بیش تر اتحادی بھی نئے تجارتی و مالیاتی روابط کے حامل ہیں اور کاروباری معاملات میں توازن یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا کو یورپ، جاپان اور دیگر حلیفوں کے ساتھ مل کر چین پر انحصار کم کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ حسّاس معاملات میں دھیرے دھیرے آپس کی تجارت کو وسعت دی جاسکتی ہے۔
اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ عالمی تجارتی تنظیم میں چین کا خیر مقدم کرکے غلطی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ اصلاحات کے نتیجے میں چین مضبوط ہوکر ابھرا ہے۔ لازم ہے کہ چین سے اشتراکِ عمل میں احتیاط برتی جائے۔ چین کو صرف اُن معاملات سے الگ کیا جائے جن سے اُسے الگ کرنا ممکن ہو۔ سرد جنگ کے زمانے کی حکمتِ عملی پر آنکھ بند کرکے عمل نہیں کیا جاسکتا۔
The Cold War Playbook of Economic Isolation Won’t Work Against China
Edward Alden
worldpoliticsreview.com