متحدہ عرب امارات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلیجی ملک بحرین نے بھی ارضِ فلسطین پر قبضہ کرکے بنائے گئے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ اس پیش رفت کو مغربی دنیا میں بڑی سیاسی کامیابی جب کہ عالم اسلام میں امت کے دیرینہ موقف سے روگردانی قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر یورپ کی استعماری قوتیں مسلمانوں کی اراضی پر اپنا قبضہ ختم کرنے پر مجبور ہوئیں، تو کئی خطوں میں ایسے تنازعات کھڑے کرتی گئیں، جو 7 دہائیوں بعد بھی حل طلب ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مقبوضہ جموں وکشمیر کا مسئلہ ہو، یا میانمر کی ریاست راکھین میں مقامی روہنگیا برادری پر ظلم وستم ہو، یا فلسطینیوں کے لیے اپنی ہی سرزمین پر ایک آزادوخود مختار وطن کا قیام، یہ تمام بحران آج بھی عالمی برادری اور اسلامی ممالک کی بے اعتنائی کی عکاسی کررہے ہیں۔ 70 برس گزرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یورپی استعمار نے ان تمام قضیوں کو مسلمانوں کی منشا کے خلاف حل کرنے کا ایک طویل مدتی منصوبہ بنایا تھا۔ ان بحرانوں کو اتنا طول دیا گیا کہ عالمی سطح پر غیرمحسوس انداز میں ان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی، اور پھر 7 دہائیاں گزرنے کے بعد یک دم ہی انہیں غیرمنطقی اور غیرمنصفانہ انجام کو پہنچانے کی حتمی کوششیں شروع کردی گئیں۔ اگست 2017ء سے 2018ء تک ریاستی سطح پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور ساڑھے 8 لاکھ افراد کو بنگلادیش ہجرت کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ یوں ان کا آبائی وطن راکھین ان سے تقریباً خالی ہوگیا۔ پھر گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت کی ہندوانتہاپسند حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی آئین میں درج مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق شقوں کو ختم کرکے اس جنت ارضی پر اپنے قبضے کو جواز فراہم کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ اب اس سال مسلمانوں کے سب سے حساس مسئلے فلسطین پر شب خون مارنے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ پہلے متحدہ عرب امارات اور اب بحرین کا اسرائیل کو تسلیم کرنا، انہی امریکی اور صہیونی کوششوں کا ایک تسلسل ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 13 اگست کو امارات اسرائیل تعلقات کا اعلان کیا تھا اور اب انہوں نے ہی 11 ستمبر کو بحرین اسرائیل تعلقات کا اعلان کیا ہے، جو اس معاملے میں امریکا کی ثالثی کے بجائے قائدانہ کردار کا پتا دیتا ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ کا یہودی داماد اور مشیر برائے مشرقِ وسطیٰ جیرڈ کشنر اسرائیل فلسطین تنازع کے مجوزہ امریکی منصوبے کا مصور سمجھا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی اہم ترین جزئیات مقبوضہ بیت المقدس سے فلسطینیوں کی مکمل دستبرداری اور ایک غیرمسلح، کمزور اور نیم خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہیں۔ یہ دونوں باتیں فلسطینیوں ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں، کیوں کہ مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ موجود ہے۔ امریکی منصوبے کے حقیقت بننے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو قبلہ اول کی زیارت کے لیے اسرائیلی ویزا حاصل کرنا ہوگا، یوں صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا ایک جواز پیدا ہوگا۔ تاہم امریکی منصوبے کو عمل جامہ پہنانے کے لیے عرب خاص طور پر خلیجی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ حالیہ پیش رفت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان امارات کے اقدام سے زیادہ باعث تشویش ہے، کیوں کہ یکم ستمبر کو شاہ بحرین حمد بن عیسیٰ الخلیفہ نے جیرڈ کشنر سے ملاقات میں کہا تھا کہ خلیج کا خطہ امن واستحکام سمیت تمام معاملات میں سعودی موقف ہی پر اعتماد کرتا ہے۔ جب کہ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات کے قیام کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط قرار دے رہا ہے۔ اس کے باوجود بحرین کے صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک جو اب تک یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، وہ بھی مستقبل قریب میں بحرین کی طرح اپنے موقف سے یوٹرن لیتے نہ نظر آئیں۔ ان کا یہ اقدام خطے کے امن واستحکام کے لیے کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، کیوں کہ فلسطینی سیاسی ومزاحمتی جماعتیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کررہی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے بحرین کے اقدام کو مقبوضہ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور مسئلہ فلسطین سے غداری قرار دیا ہے۔ صائب عریقات نے کہا ہے کہ امارات کی طرح بحرین بھی فلسطینی عوام کے حقوق کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم پر قربان کر رہا ہے۔ جب کہ حماس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ بحرین اسرائیل کے ساتھ جس معاہدے کو امن کا نام دیتا ہے، وہ خطے میں ایک نئی جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ بحرینی حکومت نے اسرئیلی دشمن کی گود میں بیٹھ کر فلسطینی قوم کے ساتھ دھوکا کیا اور اس کا یہ اقدام فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپے کے مترادف ہے۔ اس اقدام سے قضیہ فلسطین کو غیرمعمولی اور ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ دوسری جانب ترکی اور ایران سمیت کئی ممالک بحرینی حکومت کے فیصلے کی مخالفت اور فلسطینی قوم کے موقف کی بھرپور تائید کررہے ہیں۔ تُرک حکومت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ بین لاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔جب کہ ایران نے سخت لب ولہجہ اختیار کرتے ہوئے اسے صہیونی ریاست کے جرائم میں شراکت قرار دیتے ہوئے پورے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف کہا ہے۔اس کے برخلاف متحدہ عرب امارات اور مصر نے بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔ اماراتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ بحرین کا اعلان مثبت سمت میں اہم قدم ہے۔ اس اقدام سے خطے اور پوری دنیا میں امن کے قیام کے لیے ماحول سازگار بنانے میں مدد ملے گی۔ نیز مصر کے فوجی حکمران عبدالفتاح سیسی نے اس معاہدے کو خوش آیند قرار دیا ہے۔ سیسی نے شاہِ بحرین سے ٹیلی فونک گفتگو میں انہیں یقین دلایا کہمصر خطے میں امن کے فروغ کے لیے ہونے والی تمام کوششوں کا خیر مقدم کرتا ہے اور کہا کہ بحرین کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا اعلان اور تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ قابل تحسین ہے، جس پر بحرینی قیادت اور قوم مبارک باد کی مستحق ہے۔ بحرین اور اسرائیل کے درمیان معاہدے پر خطے کے ممالک کا یہ اختلافی اور تائیدی ردعمل اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ایک کروڑ 30 لاکھ فلسطینیوں کی آزاد وطن کے لیے اپنی اصولی اور تاریخی جدوجہد علاقائی طاقتوں کی آپس میں رسہ کشی کی نذر ہوگئی ہے۔ آج فلسطینی سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا انہوں نے ماضی میں اپنے قضیے کو اسلامی سے زیادہ عرب معاملہ قرار دے کر درست فیصلہ کیا تھا؟ کیوں کہ جن ممالک کو اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے مسجد اقصیٰ کی آزادی اور فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ لڑنی چاہیے تھی، وہ باہم دست بہ گریباں ہو کر اسرائیل کو مضبوط اور فلسطینی قوم کو بے یارومددگار کررہے ہیں۔ اس لیے خلیجی ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی یہ پیش رفت پوری امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔