جمعرات 10 ستمبر 2020 عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بعض عرب ممالک نے امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کیے گئے معاہدے کو جائز تسلیم کرنے کی شق بھی قرارداد میں شامل کروانے کی کوشش کی تاہم ان عرب ممالک کے نام سامنے نہیں آسکے۔ لیکن فلسطینی مداخلت کے باعث منظور نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں ’’فلسطینی میڈیا سروس‘‘ کا کہنا ہے عرب لیگ کا اجلا س فلسطین نہیں عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو جائز قرار دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ عرب لیگ کے اجلاس نے امارات اسرائیل معاہدے کی مذمت سے انکار کر دیا ’’عرب لیگ‘‘ کے وزرائے خارجہ کے ویڈیو بیان میں فلسطین کی قرارداد کا مسودہ خارج کردیا۔ قاہرہ سے موصول ہو نے والی اطلاعات کے مطابق عرب لیگ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کی مذمت کے لیے فلسطین کی جانب سے جمع کروائے گئے قرار داد کے مسودے کو ایجنڈے سے خارج کردیا۔ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کی ویڈیو کانفرنس میں فلسطینی قیادت کی جانب سے امارات اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدے کی مذمت کے لیے قرار داد کا مسودہ جمع کروایا گیا جس پر اتفاق نہیں ہوسکا تاہم عرب ممالک اور فلسطینی قیادت نے بعد ازاں قرارداد میں ’’امن معاہدے 2002ء فلسطین کے دو ریاستی حل‘‘ پر زور دینے پر اتفاق کیا۔ اس طرح اس اجلاس میں اسرائیل نے امریکا کی مدد سے عرب ممالک پر اپنا دباؤ اور کنٹرول مکمل طور سے برقرار رکھا۔
’’عرب لیگ‘‘ عربی زبان بولنے والے ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے اور یہ دنیا بھر کے 35 کروڑ افراد کی نمائندگی کر تی ہے۔ عرب لیگ کے کم و بیش25 ممالک رکن ہیں۔ ان میں الجزائر، بحرین، اتحادالقمری، چاڈ، جبوتی، مصر، ارٹیریا، عراق، فلسطین، اردن، لبنان، لیبیا، مراکش، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، عمان، سوریہ، یمن، سوڈان، تیونس، قطر، مالی، سینی گال کی بھی قومی زبان اور یہاں ’’عربی‘‘ سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے شامل ہیں۔ عرب لیگ کے بانی ارکان میں مصر، عراق، اردن، لبنان، سعودی عرب، شام، یمن شامل ہیں۔ بعد میں متعدد عرب ممالک اس کے میں شامل ہوتے رہے۔ لیبیا، سوڈان، مراکش، تیونس، کویت، الجزائر، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، عمان، ماریطانیہ، صومالیہ، ریاست فلسطین، اس کے علاوہ، جبوتی، جزائر قمر، میں اریٹیریا بطور مبصر ہیں۔ ان میں اکثر ممالک تیل اور دیگر معدنی خزانے سے مالا مال ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل میں نہ تیل ہے اور نہ وافر مقدار میں پانی لیکن اس کے خوف سے پورا عالم عرب اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ یاد رہے 1967ء کی جنگ میں عربوں کو اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد ’’خرطوم کانفرنس‘‘ میں عربوں نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ اس موقع پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ‘‘۔ توقع تو یہی تھی کہ عرب لیگ کے اجلاس سے مسلمانوں کے لیے کوئی اچھی خبر آئے گی لیکن ایسا ہوا نہیں۔
’’ماسکو‘‘ میں بھارت کو ایک مرتبہ پھر ناکامی کا سامنا ہوا۔ بھارتی وزیرِ خارجہ شنکر نے جمعرات کی رات کو چینی وزیرِ خارجہ وانگ زائی
سے بے ثمر ملا قات کی۔ ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد ماسکو میں ہوئی جہاں پاکستانی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے 2 روزہ سرکاری دورے پر موجود تھے۔ واضح رہے کہ وزرائے خارجہ کونسل، کونسل برائے سربراہان حکومت و کونسل برائے سربراہان مملکت کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کا سب سے بڑا فورم ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور خوشگوار دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا، علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کو مضبوط بنانا اور سیاسی، ثقافتی، تجارت اور معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی، تعلیم، توانائی، نقل و حمل، سیاحت، ماحولیاتی تحفظ اور دیگر شعبوں میں مؤثر تعاون کے لیے ایک فریم ورک کی تیاری ایس سی او کے اہم مقاصد ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم ایک یوریشیائی سیاسی، اقتصادی اور عسکری تعاون تنظیم ہے جسے شنگھائی میں 2001ء میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماؤں نے قائم کیا۔ یہ تمام ممالک شنگھائی پانچ (Shanghai Five) کے اراکین تھے سوائے ازبکستان کے جو اس میں 2001ء میں شامل ہوا، تب اس تنظیم کا نام بدل کر شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔ 10 جولائی 2015ء کو اس میں بھارت اور پاکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ پاکستان 2005ء سے شنگھائی تعاون تنظیم کا مبصر ملک تھا، جو تنظیم کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتا رہا اور 2010ء میں پاکستان کی جانب سے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی۔ تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان نے جولائی 2015ء میں اوفا اجلاس میں پاکستان کی درخواست کی منظوری دی اور پاکستان کی تنظیم میں باقاعدہ شمولیت کے لیے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان کی شمولیت سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔ پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ’ذمے داریوں کی یادداشت‘ پر دستخط کردیے، جس کے بعد پاکستان تنظیم کا مستقل رکن بن گیا۔ 9جون 2017ء کو پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی مکمل رکنیت مل گئی۔
قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان یہ وہ ممالک ہیں جہاں ہزاروں سال سے روس پر حملے کے لیے حملہ آور گھوڑوں پر آتے اور جاتے رہے ہیں اور اس سخت میدانی علاقے میں ہمیشہ سے پانی نایاب رہا ہے اس کی وجہ ان علاقوں میں آبادی قیام ممکن نہ ہو سکا لیکن حملہ آور افواج کے لیے اس علاقے کی بہت اہمیت ہے۔ اس علاقے کی اہمیت کی وجہ سے امریکا کی اس علاقے پر برسوں سے نظر ہے۔ چین بھی اس علاقے کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ چین کا ’’سی پیک‘‘منصوبہ اس علاقے کے بغیر نامکمل ہے۔ چین اور بھارت کی جنگ کے باوجود ان ملکوں کی جانب سے بھی بھارت کی قطعی کوئی حمایت نہیں آئی اور اس کے بر عکس چین اور پاکستان دونوں ہی ممالک کو ’’ماسکو کانفرنس‘‘ میں بہت اہمیت دی جارہی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی حدیث کو پڑھنے کے بعد ہر مسلمان کی بچپن سے پچپن تک یہی خواہش ہوتی ہے کہ ’’مدینے‘‘ میں موت آئے۔ لیکن عرب حکمرانوں کی یہودیوں سے محبت کر دیکھ کر ہم عجمی مسلمان اللہ کا شکر ادا کر ر ہے ہیں کہ ہم عربوں میں شامل نہیں۔ اسرئیل چاروں اطراف سے عرب مسلمان ممالک میں گھرا ہوا ہے لیکن ’’عرب لیگ‘‘ میں فلسطینی قرار داد کی منظوری میں رکاوٹ بن گیا لیکن بھارت آج پھر ماسکو میں ناکام ہو رہا ہے۔