دوحا میں بین الافغان امن مذاکرات شروع ہوگئے اور افتتاحی تقریب سے اندازہ ہوگیا کہ مذاکرات کا رُخ کیا ہوگا۔ امریکی وزیر خارجہ نے روایتی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ فریقین مذاکرات سے فائدہ اٹھائیں۔ سیاسی نظام کا انتخاب انہیں خود کرنا ہے۔ تشدد اور کرپشن قبول نہیں۔ مائیک پومپیو نے جو کچھ کہا ہے وہ دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں اور عمل کے بالکل برعکس ہے۔ امریکا کو ہر جگہ جس نظام سے تکلیف ہے وہ اسلامی نظام ہے۔ طالبان کے نمائندے ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ چاہتا ہوں مذاکرات میں ذاتی مفادات پر اسلام قربان نہ ہوجائے۔ ہم افغانستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ یہاں سے افغان حکومت کا اختلاف شروع ہوتا ہے اور عبداللہ عبداللہ کہتے ہیں کہ پہلے جنگ بندی ہونی چاہیے یا امن قائم ہونا چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ اور عبداللہ دونوں یہ حقیقت بھول گئے کہ افغانستان میں امریکا کے داخلے سے قبل امن بھی تھا اور سکون بھی ور وہاں کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ قبائلی جھگڑے بھی نمٹ رہے تھے جب امریکی طالبان کے قائم کردہ نظام کو مٹانے یعنی اسلام کو ملیامیٹ کرنے آئے تو اس وقت سے افغانستان میں بدامنی ہے۔ پومپیو کہتے ہیں فریقین مذاکرات سے فائدہ اٹھائیں سیاسی نظام کا انتخاب انہیں خود کرنا ہے۔ امریکا خود مذاکرات کی راہ چھوڑ کر جنگ کرنے آیا تھا اور 20 سالہ جنگ میں پتھر سے سر پھوڑنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالا جائے۔ پاکستان نے امریکا سمیت پوری عالمی برادری کو ہمیشہ یہی راستہ بتایا کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں ہے اور آج وہ دہشت گرد قرار دیے گئے افغان طالبان سے سفارتی سطح پر برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرنے پر مجبور ہے۔ امریکیوں کی دوہری پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اب بھی ان مذاکرات کی آڑ میں کسی من پسند نتیجے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر افغانوں کو اپنے مستقبل کے نظام کا خود فیصلہ کرنا تھا تو امریکا ان پر اسلام کے سوا دوسرا نظام تھوپنے کے لیے 26 ملکی فوج لے کر کیوں آیا تھا۔ اسی طرح جو گروہ امریکی سرپرستی میں افغان حکومت تک پہنچ گئے وہ کیوں چاہیں گے کہ ان کے سر پر سے امریکی چھتری ہٹ جائے۔ اب سب نے اپنی اپنی بات کھول کر سامنے رکھ دی ہے اور یہ واضح ہوگیا ہے کہ طالبان افغانستان میں اسلامی نظام ہی نافذ کریں گے۔ طالبان نے 90 کے عشرے کے اختتام پر اقتدار سنبھالا اور ملک سے دہشت گردی، افیون وار لاردز اور جمہوریت سب کا خاتمہ کردیا تھا۔ مغرب کے پیٹ میں جمہوریت کا مروڑ اُٹھ رہا تھا اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ انہیں جمہوریت بہت پسند ہے بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اسلام کو سخت ناپسند کرتے تھے اور طالبان پہلے دن سے اب تک اپنے موقف پر قائم ہیں۔ مغربی استعمار کو خواتین کی ڈرائیونگ، خواتین کی ملازمت، خواتین کی تعلیم کی فکر تھی لیکن طالبان نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی، وہ صرف ایک نکتے پر رہے کہ اسلامی امارت کا کام اسلامی نظام ہی نافذ کرنا ہے اور آج بھی وہ یہی بات کررہے ہیں۔ طالبان کے موقف کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک ان مذاکرات کا خیر مقدم بھی کرتے رہیں گے اور انہیں سبوتاژ بھی۔ تا کہ کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ ان کے خلاف پروپیگنڈہ بھی جاری ہے کہ وہ امن نہیں چاہتے، جبکہ ایسی خبریں بھی جاری کی جاتی ہیں کہ طالبان امن پر راضی ہوجائیں اور حملے بند کردیں تو مذاکرات سود مند ہوں گے۔ ان حملوں کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ مغرب تو مغرب اس کے ایجنڈے پر چلنے والے اور اس کے ٹکڑوں پر پلنے والا اسلامی ملکوں کا میڈیا بھی یہی کہتا ہے کہ طالبان دہشت گردی کررہے ہیں جب کہ وہ تو اپنے ملک سے قابض افواج کو نکالنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ دنیا کو وہ حملے تو نظر آجاتے ہیں جن میں امریکی یا ان کے ہمنوا افغان فوجی ہلاک ہوتے ہیں لیکن امریکا اور 26 ملکی افواج کی وہ بمباری نظر نہیں آتی جس نے ہزاروں لوگوں کو بلکہ اس جنگ کے نتیجے میں اردگرد کے ممالک میں لاکھوں لوگوں کو مار ڈالا۔ اصل دہشت گردی تو دوسرے ملک میں اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ہے۔ پھر بھی افغان حکومت اور امریکا یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ طاقت کے استعمال سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اب مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور افغان حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اپنی جان چھڑانے کا مذاکرات کے سواکوئی راستہ نہیں۔