پردیسی نامہ

555

خالد ظفر
میں کوئی مصنف یا لکھاری نہیں مگر کچھ آٹھ سال سے بیرون ملک موجود ہوں اور اپنی زندگی کے ان چند برسوں میں یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ نشیب و فراز دیکھ رہا ہوں۔ میری تحریر تمام پردیسی بھائیوں کے لیے ہے جو عرصہ دراز سے بیرون ملک رزق کے حصول کے لیے اپنے پیاروں سے دور محنت اور مشقت میں خون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔ شاید ان کے حالات سے ان کے گھر والے تو واقف ہوں مگر عوام کی نظر میں یہ لوگ دنیا ہی میں جنت حاصل کرنے والے لوگ ہیں کہ جنہیں دنیا کی تمام تر آرام و آسائشیں میسر ہو گئی ہیں اور بس اب ان کا بیڑا پار ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حرف عام میں پردیس ہجرت کرنے والے دو بڑے طبقے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے ملک سے رزق کے حصول کے لیے خلیجی ریاست کا سفر کرتے ہیں دوسرے وہ جو پہلے کسی خلیجی ریاست کا سفر کرتے ہیں اور کچھ پیسے جوڑتے ہی گوروں کے کسی ملک کی امیگریشن حاصل کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی نظر میں زندگی کے وہ کامیاب لوگ ہیں جنہیں دنیا میں جنت الفردوس مل گئی ہے۔ میرے زیادہ تر دوست جنہوں نے امیگریشن حاصل کی تو ان کی خوشی نا قابل بیان تھی اور حقیقت میں باقی سب لوگوں کی حسرت بھی شاید ناقابل بیان ہی تھی۔
مگر ان امیگریشن حاصل کرنے والے دوستوں سے بعد میں جب بھی میرا رابطہ ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے۔ کچھ دوست دو دو نوکریاں کرنے کے باوجود گزر بسر پورا نہیں کر پاتے اور اکثر کی شکایت یہی ہوتی تھی کہ ماحول ایسا سازگار نہیں کہ جس میں ہم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کر سکیں۔ زیادہ تر کا کہنا ہوتا تھا کہ بس اب یہی آخری منزل ہے اور اب شہریت لے کے انہی حالات میں رہنا سیکھنا ہوگا۔ کیا خبر ایک دن دنیا یہی کر رہی ہے ہو کہ: بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
بہت کم لوگ یہ ارادہ بھی کرتے ہیں کہ بس ایک دفعہ شہریت مل جائے تو واپس اپنے وطن یا کسی خلیجی ریاست کا سفر کریں گے۔ میں چونکہ ایک خلیجی ریاست میں مقیم ہوں اس لیے کچھ ان واقعات کا ذکر کروں گا کہ جن واقعات نے میرے دل پر بہت اثر کیا ہے۔
پہلا واقعہ اس خاکروب کا ہے جو عید کے دن مجھے نظر آیا۔ کیونکہ ان لوگوں کی تنخواہ شاید سب سے کم ہوتی ہے یہ لوگ کچرا اٹھانے والی کمپنی کے مشترکہ گھر میں رہتے ہیں اور رہنے کے کمرے اور باورچی خانے بھی شیئر کرتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ پیسے بچیں اور وہ اپنے وطن اپنے پیاروں کو بھیج سکیں۔ یہ لوگ مالی مدد کے سب سے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور اکثر لوگ اپنی چلتی گاڑی روک کر انہیں کچھ پیسے دے دیتے ہیں۔ یہ میری اپنے وطن سے دور پہلی عید تھی نماز عید کے بعد مسجد میں کھڑے ہوتے ہی مجھ سے کوئی عید نہ ملا کیونکہ کوئی کسی کو جانتا ہی نہیں تھا لہٰذا بس کچھ لوگ جو ایک دوسرے کو جانتے تھے گلے ملے اور باہر نکل گئے۔ کیونکہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہی نماز پڑھنے گیا تھا اس لیے باہر میں بھی اپنے دوستوں سے عید ملا اور اسی پر صبر کیا۔ اس دن مجھے اپنے والد کا شفقت بھرا گلے لگانا اور اپنے بھائی کا پرجوش سینے سے سینہ ملانا بہت یاد آیا۔ کچھ ہی دور ناشتہ لینے کے لیے ہم نے گاڑی روکی تو میں نے ایک خاکروب کو دیکھا جس کو لوگ پیسے دیتے اور آگے بڑھ جاتے مگر کوئی بھی اسے گلے لگانے کو تیار نہ ہوتا اور وہ حسرت بھری نظروں سے لوگوں کو دیکھتا کہ شاید کہہ رہا ہو کہ آج مجھے پیسے نہ دو گلے لگا کے عید مبارک کہہ دو۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ گاڑی سے باہر نکل کے اس کو گلے لگا لوں کہ اسی اثنا میں ایک بندۂ خدا نے اُسے گلے لگایا اور وہ خاکروب بے اختیار رو پڑا کہ چلو آج کسی نے مجھے بھی گلے لگا کے عید مبارک تو کہا۔
دوسرا واقعہ مجھے ایک سعودی کولیگ نے بتایا کہ اس کے ڈپارٹمنٹ میں ایک نیا پاکستانی لڑکا نوکری پر آیا ہے اس نے مدد مانگی کسی طریقے سے مجھے ریاض سے دمام لے چلو کہ میرے والد صاحب چودہ سال سے وہاں غیر قانونی مقیم ہیں گھر کے خرچے اور ہمارے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کسی ورکشاپ پر میکینک ہیں۔ میں کیوں کہ اپنی انجینئرنگ مکمل کرکے قانونی طریقے سے یہاں آیا ہوں لہٰذا مجھے وہاں جانا پڑے گا۔ قصہ مختصر کے چودہ سال کے بعد ایک باپ نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو دونوں گلے لگ کر اتنا روئے کہ میرے سعودی دوست کے آنسو بھی رک نہ سکے۔
کچھ بچے اپنے والد کی قربانیوں کو محسوس کرتے ہیں اور کچھ اس کے بالکل برعکس۔ اگلا واقعہ میرے اس دوست کا ہے جو تنخواہ کم ہونے کے باعث اپنی فیملی کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ مسلم گھر پیسے بھیجتا ہے اور سال میں کوشش کرکے دو یا تین چکر لگا لیتا ہے تاکہ اپنے گھر والوں سے ملاقات ہو سکے۔ پاکستان سے واپسی پر ایک دن میں نے اسے بڑا اداس پایا۔ اصرار کرنے پر اس نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں اس کی بیوی باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھی اور رات کے کچھ دس بجے اس کا سب سے بڑا بیٹا بائیک چلاتا ہوا گھر پہنچا کیونکہ حالات ہی کچھ اس طرح کے ہیں تو اس نے اپنے بیٹے کو غصے میں ڈانٹا کہ اتنی رات گئے کہاں گئے تھے یہ کہہ کر وہ بازار چلا گیا روٹی لینے راستے میں اسے خیال آیا کہ اس نے پیسے تو لیے ہی نہیں لہٰذا وہ دوبارہ گھر لوٹا اور اندر داخل ہوا پردے کی اوٹ سے اس نے اپنے بیٹے کو اپنی ماں سے کہتے ہوئے سنا کہ ابو کب واپس جائیں گے ہمارا جینا دوبھر کر دیا ہے تو اس کی بیوی نے جواب دیا کہ بیٹا تھوڑے دن کی بات ہے میں بھی برداشت کر رہی ہوں تم بھی برداشت کر لو۔ اس نے بجھے دل کے ساتھ اور نم آنکھوں کے ساتھ مجھ سے کہا یار ہم اس پردیس میں کس کے لیے خاک چھان رہے ہیں۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعات ہیں کہ اکثر پردیس میں رہنے والوں درپیش ہوتے ہیں۔ اس تحریر کو بس ایک آخری واقعہ پر ختم کروں گا کہ جو کورونا کی وبا میں پیش آیا۔ ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر دہاڑی دار لوگ ہوئے کیونکہ وائرس کی روک تھام کے لیے پورا شہر بند تھا اس لیے ان لوگوں کو روزی کمانے کا موقع صرف انہیں اوقات میں ملتا تھا جو حکومت کی طرف سے مقرر تھے۔ لوگ باوجود ضرورت کے ان کو کام نہیں دیتے۔ آپ اپنی گاڑی پر کسی لیبر مارکیٹ سے گزر رہے ہوں تو فٹ پاتھ پر بیٹھے بیلچے لیے یہ مزدور ہر گزرتی گاڑی کو اس حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ابھی کوئی گاڑی والا گاڑی روکے گا انہوں نے کچھ کام دے گا بہت سے لوگ آپ کو شاپنگ سینٹر کی پارکنگ میں پرفیوم فروخت کرتے نظر آئیں گے کہ جن کے پاس نوکری نہیں۔
پچھلے دنوں ایسا ہی ایک پردیسی بھائی پارک میں میرے پاس آیا اور گزارش کی کہ کچھ خرید لوں۔ اول تو میں نے منع کیا اور وہ چلا گیا مگر مجھے احساس ہوا کہ پتا نہیں کن حالات میں رمضان کی تپتی بھوک میں یہ کام کر رہا ہے تم میں نے اس سے کچھ سامان لیے بنا کچھ مدد کرنے کی کوشش کی مگر اس کی خودداری نے گوارا نہ کیا اور پھر مجھے پرفیوم کی بوتل فروخت کرتے ہوئے کہا کہ میں مجبور تو ہوں مگر گداگر نہیں۔ مجھے بھی دل پہ ایک چوٹ سی لگی کہ کسی کی خودداری کا امتحان کیوں لیا۔ ہم پردیسی پردیس میں رہ کر کچھ زیادہ ہی حساس ہوجاتے ہیں۔ اپنے وطن میں اپنے پیاروں کی طرف سے تکلیف ہماری راتوں کی نیند سے چھین لیتی ہے۔ شاید ہمارے گھر والوں کو اس کا احساس ہی نہیں کہ ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے پردیس میں رہنا کوئی آسان کام نہیں اور اس کو شاید صرف وہی محسوس کرسکتا ہے جو خود ان حالات سے گزرا ہو۔
میں اپنے ہم وطنوں سے یہی درخواست کروں گا کہ اپنے پیارے بیرون ملک مقیم باپ بھائی یا شوہر سے غیر ضروری فرمائشیں نہ کریں اور حکومت وقت سے بھی گزارش کروں گا کہ مشکل کی اس گھڑی میں بیرون ملک مقیم ان لوگوں کا ساتھ ضرور دیں جنہوں نے خون پسینہ ایک کرکے اپنے ملک کے لیے زر مبادلہ بھیجا اور آج وہ ہماری مدد کے منتظر ہیں۔ میں اپنی تحریر اقبال اشعر کے ان اشعار پر ختم کروں گا۔
کچھ نہیں بدلا دیوانے تھے دیوانے ہی رہے
ہم شہروں میں رہ کر بھی پرانے ہی رہے
دل کی بستی میں ہزاروں انقلاب آئے مگر
درد کے موسم سہانے تھے سہانے ہی رہے
اے پرندوں ہجرت کرنے سے کیا حاصل ہوا
چونچ میں تھے چار دانے چار دانے ہی رہے