بندگان بے کس

320

موٹر وے واقعے کے ملزمان کی نشاندہی ہوچکی۔ ایک ملزم نے ازخود گرفتاری دے دی ہے۔ یہی اصل مجرم ہے، تاحال کہنا مشکل ہے۔ اس واقعہ نے حکومت اور نظام دونوں کو ایک بار پھر ننگا کردیا ہے۔ دونوں کی حقیقت ظاہر کردی ہے۔ حماقت آمیز فیصلوں اور عدم کارکردگی کا ایک انبار ہے، ہر دن کوئی نہ کوئی بدقسمت جن کی زد پر آجاتا ہے۔ ایک خاتون بذریعہ موٹروے رات دیر سے اپنے تین بچوں کے ساتھ لاہور سے گوجرانوالہ جارہی تھیں۔ راستے میں ان کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوگیا اور پھر وہ دو درندوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔ لاہور پولیس کے سربراہ نے درندوں کو ہدف بنانے کے بجائے الٹا خاتون پر ہی الزامات کی بارش کردی۔ ’’چلنے سے پہلے انہیں پٹرول چیک کر لینا چاہیے۔ وہ حیران ہیں کہ تین بچوں کی ماں اتنی رات کو اکیلی سفر پر کیوں نکلیں۔ خاتون ڈیفنس سے نکلی تو جی ٹی روڈ جہاں آبادی ہے وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ خاتون نے 15پر کال کرنے کے بجائے بھائی کو کال کیوں کی؟‘‘ کیا بصیرت ہے؟ پولیس سربراہ کے اس بیان نے جلتی پر وہ تیل ڈالا کہ لوگ تڑپ اٹھے۔ سوشل میڈیا پر پولیس سربراہ کے اعتراضات کو لوگوں نے آڑے ہا تھوں لیا لیکن ایک سی سی پی او کیا اس نظام میں سب کا طرزفکر یہی ہے۔ ابتدا میں تحریک انصاف کی پوری حکومت سی سی پی اوکے دفاع میں اتر آئی تھی۔ معروف اینکر کامران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے عمر شیخ کے بیان پر ان کا ردعمل لینا چاہا وہ رٹو توتے کی طرح ایک ہی بات دہراتے رہے مجال ہے جو اس کوچہ میں قدم رکھا ہو تنقید کرنا تو بڑی بات ہے۔
کامران خان: ’’چیف منسٹر صاحب سی سی پی او لاہور کے بیان پر آپ کو پتا ہے پوری قوم اشتعال میں آگئی ہے جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے آپ اس کی خطائیں اس کی کمزوریاں اس کی غلطیاں گنوانے کی کوشش تو نہ کرتے آپ اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے۔ یہ جو گفتگو فرمائی ہے سی سی پی او صاحب نے اس نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے‘‘۔
عثمان بزدار: خان صاحب اپنے جو فرائض ہیں ان سے ہم کسی بھی صورت غفلت نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ پنجاب گورنمنٹ کی عمل داری ہے اس کی ذمے داری ہمارے پر ہے ہم ان شااللہ مجرموں تک پہنچیں گے اور یہ ہماری ڈیوٹی ہے۔ آپ دیکھیں کہ پنجاب کے اندر جو بھی واقعہ ہوا ہے اس کے ملزمان کو ہم نے ٹریس کیا ہے۔آپ تھوڑا وقت دیں ان شااللہ۔۔۔
کامران خان: ٹریس کرنا یقینا آپ کی اور آپ کی حکومت کی اولین ذمے داری ہے میں اس گفتگو کی بات کررہا ہوں جو گردش کررہی ہے اس وقت پورے پا کستان میںجو عمر شیخ صاحب نے آپ کے سی سی پی او نے کی ہے۔ آپ کا کیا ردعمل ہے اس گفتگو پر؟
عثمان بزدار: اس (موٹر وے) واقعہ پر ہم نے ایک کمیٹی بنادی ہے۔ ہوم سیکرٹری اس کو لیڈ کررہے ہیں تو ان شا اللہ تمام پہلوئوں کو ہم زیرغور لائیں گے۔ اس کا جو رزلٹ ہوگا ہم پوری قوم کو بتائیں گے۔
کا مران خان: لیکن عمر شیخ صاحب کی یہ گفتگو جس میں کہ وہ اس خاتون کی غلطیاں گنوا رہے ہیں جس سے کہ ان کا امیج، پولیس کا امیج، پنجاب کا امیج، آپ کی حکومت کا امیج بری طرح سے متاثر ہوا ہے میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس گفتگو نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
بزدار: خان صاحب ان شااللہ آپ دیکھیں گے ہر پہلو سے ہر زاویہ سے پوری انوسٹی گیشن ہوگی اور جو اس واقعہ کا ذمے دار ہوگا اس کے خلاف ہم کارروائی کریں گے اور جو ہماری ڈیوٹی ہے اس سے ہم بھاگیں گے نہیں۔
کامران خان: لیکن چیف منسٹر صاحب میں یہ جاننا چاہوں گا جب سے عمر شیخ کی اپائنٹمنٹ آپ نے کی ہے عمر شیخ کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ آپ سے کوئی بڑی فاش غلطی نہیں ہوگئی پچھلے تین دن کے حوالے سے دیکھیں ایک انبار ہے جوان کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔
بزدار: میڈیا میں کچھ چیزیں ضرورت سے زیادہ بھی رپورٹ ہوگئیں ہیں۔ جہاں تک سی سی پی او کی بات ہے پولیس کی بات ہے یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے جس کو چاہے مناسب سمجھتی ہے اس کو اپائنٹ کرتی ہے مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کو ہم ان کی دہلیز پر ریلیف دیں۔
’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ اور ’’کہو کھیت کی سنے کھلیان کی‘‘ امید ہے اس انٹرویو کے بعد ان محاروں کا مفہوم آپ کو سمجھ میں آگیا ہوگا۔ ذاتی انا کے سوا کون سی خوبی ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی نامزدگی کا باعث بنی ہے اس کا سراغ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعہ نے جس نے پورے معاشرے کو خوف میں مبتلا کردیا ہے وزیراعلیٰ پنجاب کے سکون میں کوئی خلل ڈالا ہو۔ ایک عورت کی نسوانیت کا ریپ درندوں نے کیا تھا جب کہ حکومت کے رویے نے پورے ملک کو مشتعل کردیا ہے۔ اس ملک میں روزانہ نہ جانے کس کس کا بدن کس کس کی روح ز خمی ہوتی ہے۔ یہ واقعہ تو رپورٹ ہو گیا کہ ایک بڑی شاہراہ پر پیش آیا تھا۔ ان شاہراہوں سے دور جو کچھ ہوتا ہے جس کی کسی کو خبر نہیں ہوتی، جہاں اس طرح کے المیوں کو خاموشی سے دفن کردیا جاتا ہے، جہاں پرندوں کی جگہ ماتمی گیت ہوا میں اڑتے ہیں ان کی آنکھوں سے برستے پانی کو سیاہی بنا کر کون رپورٹ کرے گا۔ ان کے آنسوئوں کو، ان کے دردوں کو ون فائیو پر رپورٹ کریں یا کسی اور جگہ، یہ کسی کی jurisdiction (دائرہ کار) میں نہیں آتے۔
تحریک انصاف کا رویہ پورے ملک کے ساتھ ایسا ہے جیسا فاتحین کا مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر محکمے کو، ہر غریب کو تیز رفتار گھوڑوں کے سموں تلے روندا جا رہا ہے۔ اکثریت کوما کے مریض کی طرح مصنوعی آلات کی اذیت کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ پورا ملک اداس ہے۔ اقبال نے کہیں لکھا تھا ’’میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ اس ملک میں سوائے برسر اقتدار طبقے کے ہر شخص کا کوئی نہ کوئی، کچھ نہ کچھ کھو گیا ہے، چھین لیا گیا ہے، لوٹ لیا گیا ہے۔ ہر شخص طاق میں رکھے ہوئے دیے کی مانند جل رہا ہے مگر ان حکمرانوں کی نیند اور بے حسی نہیں ٹوٹتی۔ سب پنجاب پولیس کی طرح بحرانوں کا شکار ہیں۔ تقرریوں اور تبادلوں کی بازگشت میں جہاں سب تلخ دل کے ساتھ ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کام کرتے ہیں تو نیب کی زد میں آتے ہیں۔ حکومت کا مسئلہ کارکردگی نہیں ہے حکومت انتظامیہ کو اپنا تابع فرمان اور جی حضور دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ پو لیس جسے حکمران اشرافیہ کے تحفظ کی ذمے داریوں سے فرصت نہیں، نہ کل نہ آج وہ کسی کو کیسے تحفظ دے سکتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت جنرلوں کے فیض سے برقرار ہے۔ یقین نہیں آتا کہ انہیں اکیڈ میز میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ سب سے پہلی چیز کردار کی مضبوطی ہے۔ عملی زندگی میں نہ صرف وہ سیاستدانوں کے ہم قدم بلکہ دو ہاتھ آگے ہی ہیں ورنہ یہ کرپٹ اور صلاحیتوں سے عاری حکومت کب کی رخصت ہو چکی ہوتی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ آنے والوں کی کیا گارنٹی جب کہ نظام یہی رہے گا۔ ریپ کے واقعے کو rule of law کی عدم موجودگی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے۔ اگر یہی وجہ ہوتی تو امریکا میں ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار نہ ہوتی۔ مسئلہ لبرل نظریات پر استوار سرمایہ دارانہ نظام کا ہے جس میں جنسی جذبات ابھارنا ایک کاروبار ہے۔ یہ فیشن انڈسٹری ہو یا میڈیا پر اخلاق سوز پروگرام یا پھر پورن انڈسٹری ہو۔ اس نظام میں ریپ کی سزا چند سو پائونڈ یا ڈالر جرمانہ یا کمیونٹی ورک ہے۔ اس نظام میں ایک طرف لبرل ازم کا پرچار کیا جاتا ہے، شہوانی درندگی کو خوش کن انداز میں ابھارا جاتا ہے اور پھر درندگی کے واقعات پر شور مچایا جاتا ہے۔ موجودہ نظام دنیا بھر میں عورتوں کوتحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ یہ اسلام اور اسلامی نظام ہی ہے جو معاشرے میں ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے عورت کی عفت، عصمت اور تکریم کے نظریہ کو پروان چڑھاتا ہے۔ عورت کی آبرو کی حفاظت کرتا ہے اور اسے داغدار کرنے والے کو نشان عبرت بنادیتا ہے۔