ایک خبر کے مطابق گلستان جوہر میں فیصل کینٹ کے علاقے میں جوہر چورنگی براستہ یونیورسٹی سے پہلوان گوٹھ کی جانب ایک نالاجاتا ہے میں بڑے بڑے شگاف پڑگئے ہیں ۔ ایسے نالے کراچی بھر میں واقع ہیں اور اچانک سڑک ختم نالا ٹوٹا ہوا ملتا ہے ۔ اس خبر اور اس میںنشاندہی کیے گئے نالے کو قریب جا کر دیکھا جائے اور یہ تصور کیا جائے کہ جس قسم کی بارش گزشتہ دنوں ہوئی ہے ایسی بارش میں اندازے کی ذرا سی غلطی سے پوری پوری گاڑی نالے میں جا سکتی ہے ۔ بلکہ بعض مقامات پر تو ایک بس جتنی جگہ بھی ٹوٹی ہوئی ہے ۔ یہ کھلے ہوئے برساتی نالے پورے شہر میں موجود ہیں ۔ ان میں تمام دُکاندار اور اہل محلہ بڑے اطمینان سے کچرا ڈالتے ہیں ۔ نہ شہریوں کو نتائج کی پروا تھی نہ انتظامیہ کو فکر بالآخر نالے اور علاقے ڈوب گئے ۔ شہری انتظامیہ ایسے نالوں کا سروے بھی کرے اور جلد از لد انہیں بند کرایا جائے جبکہ سڑکوں کی فوری مرمت کی ضرورت ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ شہریوں کی تربیت کی بھی ۔ راستے میں کچرا پھینکنا دوسرے لوگوں کے دروازے پر اپنا کچرا پھینکنا وغیرہ تو عام ہے ۔لیکن برساتی نالوں میں کچرا پھینکنا تو بہت بڑا جرم ہے اس سے بہت بڑا نقصان ہوا ہے ۔ گلستان جوہر کے اس نالے اور بہت سے علاقوں کا مسئلہ یہ ہے کہ کہیں سے بلدیہ کراچی کی حدود ہیں اور کہیں سے کنٹونمنٹ کی ۔ عوام دھکے کھاتے رہتے ہیں ۔اگر بلدیہ کے پاس کنٹونمنٹ کی حدود کی شکایت آ جائے یا کنٹونمنٹ کے پاس بلدیہ کی حدود کی شکایت آجائے تو وہ صارف کو بھیجنے کے بجائے شکایت رجسٹرڈ کریں اور متعلقہ ادارے کو بھیج کر صارف کو مطلع کریں کہ اس خط نمبر کے تحت آپ کی شکایت آگے بڑھا دی گئی ہے ۔ یہ مسئلہ بھی حل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک ہی علاقے میں تین تین اداروں کا کنٹرول کیوں ہے ۔ اس کا حل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، یا میٹرو پولیٹن بلدیہ کی صورت میں بنایا گیا ہے ۔ اگر ارباب حل و عقد اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو بلدیہ کو میٹرو پولیٹن بنانا ہوگا ڈھائی پونے تین کروڑ لوگوں کا شہر ایک حکومت سے کم نہیں ہوتا۔