بلدیاتی انتخابات سے فرارکے ارادے

290

سندھ میں بلدیات سے متعلق تمام امور طے شدہ حکمت عملی کے مطابق چل رہے ہیں ۔ پہلے ایڈ منسٹریٹرز کے تقرر میں تاخیر کی گئی پھر اچانک تقرر کر دیا گیا ۔ جب ایڈ منسٹریٹرز نے چارج سنبھال لیا تو پیپلز پارٹی کھل کر سامنے آ گئی اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اعلان کر دیا کہ پرانی حلقہ بندیوں پر بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکتے ۔ یہ بات وزیر اعلیٰ سندھ کو کب معلوم ہوئی کہ پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات نہیں ہو سکتے ، اگر وہ اوران کی حکومت پہلے سے جانتے تھے اور جانتے ہی ہوں گے تو پہلے اس حوالے سے زبان نہیں کھولی گئی ۔ اس بیان کا سیدھا سادا مطلب ہے کہ فی الحال حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں ہے اور کام ایڈ منسٹریٹرز کے ذریعے چلانے کا منصوبہ ہے ۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے اور نئی حلقہ بنفیاں نئی مردم شماری کے بعد ہوں گی اور مردم شماری کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل دے گی ۔ کہنے کو تو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ایک ہفتے میںطلب کیا جا سکتا ہے اور دس روز میں منظوری اور حلقہ بندیوں کا کام بھی ہو سکتا ہے لیکن چونکہ پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان خاموش سمجھوتا ہے کہ آپ پنجاب اور کے پی کے میں بلدیات چلائیں ہم سندھ میں چلائیں گے ۔ بیان بازی اپنی جگہ جاری رہے گی ۔ تو پھر بلدیاتی انتخابات کیوں کرائے جائیں ۔ مردم شماری اب تک نہ ہونے کا سبب کیا ہے ۔ وفاق اور صوبوں کی حکومتیں یعنی پی پی پی اور پی ٹی آئی۔ کیونکہ یہی دو پارٹیاں فیصلہ کر سکتی ہیں ۔ پی ٹی آئی مرکز اور تین صوبوں پر قابض ہے اور پی پی پی صرف سندھ تک محدود رہ گئی ہے ۔ یہ مطالبہ جماعت اسلامی بار بار کر چکی ہے کہ مردم شماری اور شفاف حلقہ بندیاں جلد کی جائیں لیکن چونکہ معاملہ نیتوں کا ہے اس لیے معاملات یہاں تک پہنچائے گئے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاق پر الزام لگایا کہ وفاقی حکومت کچھ نہیں کرتی اور ملبہ دوسروں پر گرا کر اپنی جان چھڑاتی ہے ۔ این ایف سی ایوارڈ سے متعلق وعدے بھی پورے نہیں کیے جا رہے ۔ ایک اور بات جس کا خدشہ تھا بلکہ اس کے بغیر سندھ کا کوئی حکمراں رہ نہیں سکتا وہ بھی ہو ہی گئی ۔ یعنی سندھ کے دیہی علاقوں کا مسئلہ شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ سنگین بنا کر پیش کرنا تاکہ دیہی سندھ کے بڑے بڑے زمینداروں اور وڈیروں کو فائدہ پہنچایا جا سکے ۔ چنانچہ وزیر اعلیٰ نے شکوہ کیا ہے کہ میڈیا نے بارش سے متاثرہ دیہی سندھ کے علاقوں کی مناسب کوریج نہیں کی ۔ ساتھ ہی وفاقی حکومت سے شکوہ کہ اس نے کوئی مدد نہیں کی لیکن جب ان سے کراچی کی خراب صورتحال پرسوال پوچھا گیا تو وہ ناراض ہو کر اُٹھ گئے ۔ بات ہے بھی ناراض ہونے کی ۔ وفاق اور سندھ نے ملکر کراچی کی آبادی کم ظاہر کی ہے ۔ دو آئی جی ریکارڈ پر اس شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ بتا چکے لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی شہر کی آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی ۔ بلکہ کراچی تو کئی ملکوں سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جس وقت یہ کام ہو رہا تھا اس وقت وفاق کو بھی کراچی سے دلچپسی نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے اس لیے اب دونوں کراچی کی اصل آبادی بتانے پر تیار نہیں ۔کراچی کی جو بھی آبادی ظاہر کی گئی ہے اس کے مطابق بھی تو اس شہر کو وسائل اور حقوق نہیںدیے جا رہے ۔ اگر دیہی سندھ کے مسئلے کو کوریج مل گئی تو لوگوں کے ٹیکس بھی معاف کرائے جائیں گے تو کراچی کے ٹیکس بجلی وغیرہ کے بل کیوں معاف نہیں کیے جاتے ۔ کراچی کا مسئلہ ہے ہی یہ کہ یہاں کی آبادی کم ظاہر کی گئی ۔ پھر انتخابات میں حقیقی نمائندوں کو آنے نہیں دیا جاتا ۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں شفاف مردم شماری نئے بلدیاتی حلقوں اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا ہے ۔ انوں نے27ستمبر کو حقوق کراچی مارچ کا بھی اعلان کیا ہے اور سارے شہر سے لوگوں کو اس میں دعوت دی ہے اگر لوگ اپنے مسئلے کے لیے نکل کر نہیں آئے تو کوئی اور نہیں آئے گا ۔ اس لیے بار بار کہا جا رہا ہے کہ اہل کراچی آگے بڑھو اپنا حق پہچانو ۔ حکمراں پارٹیاں تو ایک دوسرے پر الزامات کا کھیل کھیلتی رہیں گی ۔ ان کے ارادے انتخابات کرانے کے نہیں ہیں ۔ ان حالات میں عدالتوں کو بھی نوٹس لینا ہوگا ۔ سندھ ہائیکورٹ نے120 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ کا بیان اس کا جواب لگ رہا ہے بعد میں اٹارنی جنرل سندھ یا وزیر قانون پیش ہوں گے ۔اور یہی بات دہرا دیں گے کہ پرانی فہرستوں پر انتخابات نہیں ہو سکتے ۔ یعنی اب اس کا نمائندہ وزیر اعلیٰ کے بیان کی روشنی میں ان کا نمائندہ عدالت کو بتائے گا کہ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے ۔