برطانیہ میں جہاں اب تک کورونا سے اکتالیس ہزار چھ سو سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں پھر ایک بار وائرس کی نئی لہر ابھرنے کا خطرہ ہے جس کی پیش بندی کے لیے پچھلے ہفتہ وزیر اعظم بورس جانسن نے انگلستان میں چھ سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی عاید کردی ہے اور خبردار کیا ہے کہ جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اس پر تین ہزار دو سو پاونڈ کا جرمانہ ہوگا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی اگلے موسم بہار تک جاری رہے گی یوں اس کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ اس بار یہ وبا کرسمس چرا لے جائے گی۔ عام خیال ہے کہ برطانیہ کے عوام اس سال کرسمس سے اسی طرح سے محروم رہیں گے جس طرح برطانیہ کے مسلمان بقر عید منانے سے محروم رہے تھے، اس سلسلے میں برطانیہ کے مسلمانوں کو شکایت ہے کہ ان کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کیا گیا تھا، عین بقر عید کی صبح کو مانچسٹر اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ بقر عید کی نماز اور دوسری تقریبات منسوخ کردیں۔ حکومت کو بہت پہلے سے علم تھا کہ بقر عید کس روز منائی جائے گی لیکن اس کے باوجود مسلمانوں سے عید کی نماز کے انتظامات کے بارے میں پہلے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ اس بنا پر برطانوی حکومت پر برطانیہ میںآباد مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔
لیکن اس سے زیادہ تشویش، عوام کو اس بات پر ہے کہ اس وبا کی وجہ سے برطانیہ کے اتحاد کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کورونا پر کنٹرول کے بارے میں انگلستان، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی حکمت عملی میں زمین آسمان کا فرق رہا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی حکمت عملی خود سری کی حدوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ کی بر سر اقتدار جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی آزادی کے بارے میں دوسرے ریفرنڈم کی خواہاں ہے جس کے لیے وہ اپنی پالیسیوں میں آزادی کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ جب سے برطانیہ یورپ سے علٰیحدہ ہوا ہے، اسکاٹ لینڈ کا رویہ باغیانہ رہا ہے کیونکہ اسکاٹ لینڈ یورپ سے تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس مسئلے پر اسکاٹ لینڈ کے عوام اسکاٹش نیشل پارٹی کے پوری طرح سے ساتھ ہیں۔ بڑی آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کورونا کے خاتمے کے بعد اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے ریفرنڈم کا مطالبہ سیاسی زلزلے کا باعث بنے گا۔
ادھر شمالی آئرلینڈ بھی اسکاٹ لینڈ کی طرح یورپ میں رہنے کے حق میں ہے اور اس تنازعے کی وجہ سے شمالی آئرلینڈ میں اقتدار میں شراکت کے بارے میں وہ سمجھوتا ٹھپ پڑنے کا خطرہ ہے جو فرائی ڈے ایگریمنٹ کہلاتا ہے اور جو دراصل امریکا نے طے کرایا تھا اگر یہ سمجھوتا ختم ہوا تو بلا شبہ برطانیہ اور امریکا کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہوں گے۔ اس وقت سب سے زیادہ تشویش معیشت کے بارے میں ہے جس پر وبا کا تباہ کن اثر ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چھوٹے تاجروں کو ستر ارب پائونڈ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے یہ نقصان پچھلے اکتالیس سال میں سب سے زیادہ ہے۔ معیشت پر تباہ کن اثر کی وجہ پر بینک آف انگلینڈ کا کہنا ہے کہ بے روزگاروں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوگا اور یہ تعداد پچیس لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
معیشت کی بدحالی کے ساتھ عوام پچھلے آٹھ مہینوں سے گھروں میں قید سے گھبرا گئے ہیں اور بیش تر نفسیاتی امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ پابندیوں کا ایک تشویش ناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ اس دوران عوام میں شراب نوشی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ گھروں میں قید ہونے کی وجہ سے بیش تر لوگوں نے شراب نوشی کا سہارا لیا ہے۔ اس بیماری کا برطانیہ میں جمہوریت پر بھی تباہ کن اثر مرتب ہوا ہے۔ دارالعوام میں گنے چنے اراکین دیکھ کر لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کہاں گئی جس میں حکومت عوام کے نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہوتی تھی اور حکومت کی پالیسیوں پر باز پرس ہوتی تھی۔ حزب مخالف لیبر پارٹی جس کا ایک زمانہ میں زبردست دبدبہ تھا یہودیوں کے اینٹی سیمٹزم کے الزام کی وجہ سے نہ صرف پچھلے عام انتخابات ہار گئی بلکہ بڑی حد تک بکھر گئی ہے۔ حزب مخالف اور پارلیمنٹ کی کمزوری کی وجہ سے وزیر اعظم بورس جانسن کے مشیر بے حد طاقت ور ہو گئے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برطانیہ میںاس وقت پارلیمانی نظام کی جگہ مشیروں کا نظام رائج ہوگیا ہے جو آمرنہ مزاج کے ساتھ احتساب سے بالا تر ہے۔ غرض اس وقت برطانیہ کورونا کی وجہ سے چو مکھی بحران سے دو چار ہے اور یہ بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ سائنس دانوں کو خدشہ ہے کہ یہ وبا اگلے دو سال تک ملک پر چھائی رہے گی۔ جہاں تک اس وبا سے بچنے کے لیے ویکسین کا انتظار ہے تو اگلے سال تک اس کی بھی امید نہیں۔ آکسفورڈ میں جو ویکسین تیار ہور ہی ہے اس کی آزمائش میں رکاوٹ کی وجہ سے جلد ویکسین کی تیاری کی امید نہیں ہے۔