لٹتی بچیوں کو کون امان دے گا؟

472

لاہور اجتماعی زیادتی کیس کے سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نے مستقل کھر کر لیا ہے کہ ’’دعا کرو کہ ملزمان امیر، اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے نہ ہوں ورنہ ملزمان کو نشانِ عبرت بناتے بناتے مظلوم خود نشا ن ِ عبرت اور سوالیہ نشان بن جائے گی کہ اسی کا کوئی ہوتا سوتا ہو گا‘‘ اور حکومت یہ کہہ کر خاموش ہو جائے گی بس اب بس اور بس؟
لاہور اجتماعی زیادتی کی داستان کے ساتھ ہی حکمرانوں کی جانب سے حسبِ دستور بیان سامنے آیا ہے کہ ملزمان کو نشان عبرت بنا دیں۔ یہ سب کچھ دور پر ے کی باتیں نہیں بلکہ زینب کیس میں بھی سامنے آ چکی ہیں اور ہر بے آبرو ہوتی پاکستانی بیٹی کے بارے میں ہمارے حکمران بیان دیتے رہتے ہیں اور رہیں گے۔ بیان تو سی سی پی او عمر شیخ کا تھا۔ انہوں نے خوب کہا کہ ’’رات دو بجے گھر میں سوتے بچوں کو اُٹھاکر نکلنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی پرانی عادت ہے۔ ہر بڑے جرم کے بعد ان کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قصور وار عوام کو بتایا جائے جس سے ان کی جان چھوٹ جائے۔ لیکن ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں فرانس اور برطانیہ آمنے سامنے کے ملک ہیں ان دونوں ممالک کے درمیان صرف ایک دریا ہے جو دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس دونوں ہی ممالک میں 1793ء میں غربت بے روزگاری عرُوج پر تھی اور لیکن نظام مختلف تھا۔ ایک بہت مشہور واقعہ لوگوں نے سن رکھا ہوگا کہ ملکہ فرانس سے عوام نے شکایت کی کھانے کے لیے ڈبل روٹی نہیں مل رہی ہے تو ملکہ فرانس نے عوام سے کہا کہ ’’ڈبل روٹی نہیں مل رہی ہے تو کیک کھا لو‘‘۔ بس پھر کیا تھا 10 نومبر 1793ء کو خدائی عبادت کے خلاف قانون کی منظوری سے فرانس میں کسی کی گردن محفوظ نہ تھی، 1794۔ 1793 کے درمیان ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ عوام کے خیالات و جذبات کے سامنے بادشاہ، ملکہ، شاہی خاندان، امرا اور وہ سب اشخاص اور ادارے جو سیاسی زندگی سے متعلق تھے ختم ہوگئے۔ ملکہ فرانس کے ان الفاظ نے عوام کے سماجی، اخلاقی اور انسانی پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا اور 16 اکتوبر 1793ء کو بادشاہ اور ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی۔ لیکن تاج ِ برطانیہ آج بھی اپنی خامیوں کے باوجود موجود ہے۔
اب ہمارے ملک میں ایک واقع پر غور کریںفروری 2018ء میں بدنام زمانہ اداکارہ شبنم اجتماعی زیادتی کیس کے مرکزی ملزم فاروق بندیال کو پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اور بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ ان کی ملاقات کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ ماضی میں سیاسی حوالے سے بندیال کا نام کبھی سننے میں نہیں آیا لیکن اس کے باوجود ان کے مختلف سیاسی جماعتوں سے روابط رہے ہیں۔ بندیال کا نام 12 مئی1978ء میں اداکارہ شبنم اجتماعی زیادتی کیس کے مرکزی مجرم کی حیثیت سے سامنے آیا تھا۔ تمام ملزمان اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران بھی شامل تھے۔ واردات کے پانچ روز بعد 17 مئی 1978ء کو لاہور پولیس نے ان ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
اس زمانے میں جنرل ضیاء کا مارشل لا نافذ تھا اور بندیال کے ماموں ایس کے بندیال صوبائی سیکرٹری داخلہ کے عہدے پر فائز تھے۔ ملزم بندیال اور اس کے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی گئی مگر عوامی احتجاج اور فلم انڈسٹری کی ہڑتال کے بعد حکومت ان کے خلاف مقدمہ چلانے پر مجبور ہو گئی۔ 24 اکتوبر 1979ء کو فوجی عدالت نے ملزمان میں بندیال، وسیم یعقوب بٹ، طاہر تنویر بھنڈر جمیل احمد چٹھہ اور جمشید اکبر ساہی شامل تھے کو سزائے موت سنا دی تاہم بعد ازاں اداکارہ شبنم پر دباؤ ڈلوا کر ان کی سزا معاف کر دی گئی۔ بندیال اور اس ساتھیوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بی کلاس دی گئی تھی۔ جیل میں موجود سیاسی قیدیوں کے مطابق وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ عام قیدیوں کو بڑے فخر سے بتاتا تھا کہ ہم نے اداکارہ شبنم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کی سفارش پر ان کی سزا عمر قید میں بدل دی گئی اور شبنم انہیں معاف کرنے کے بعد اپنے اکلوتے بیٹے اور خاوند کے ساتھ بیرون ملک منتقل ہو گئیں۔ اداکارہ شبنم نے 25 نومبر 1978ء کو فوجی عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا اور بندیال اور دیگر ملزمان کی شناخت کی۔ یہ سارا احوال تفصیل کے ساتھ شائع ہوا اس کی کوئی بات چھُپی ہوئی نہیں۔ ادکارہ شبنم کے وکیل نام ور ماہر قانون ایس ایم ظفر تھے جب کہ بندیال کی جانب سے بھی وکیل صفائی کے طور پر اس زمانے کے بھاری فیس والے چوٹی کے وکیل عاشق حسین بٹالوی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ وکیل عاشق حسین بٹالوی بھی انسانی حقوق سرگرم رکن بھی تھے۔ اداکارہ شبنم نے بیان ریکارڈ کرانے سے قبل بائبل پر حلف دیا، عدالت نے ان سے پوچھا کہ وہ کس زبان میں بیان ریکارڈ کرائیں گی تو شبنم نے کہا میں قومی زبان اردو ہی میں بیان دوں گی، اخبارات کے مطابق شبنم نے بتایا کہ ملزمان میرے بیٹے رونی کے اغوا اور قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔
24 اکتوبر 1979ء بندیال کی اور اس کے ساتھیوں کی اس کہانی کا کردار آج بھی پاکستان میں 41 سال سے بار بار دہرائی جانے والی اس کہانی سے کل کی طرح آج بھی ایک بات پھر واضح ہو کر سامنے آئی یہ ہے کہ مارشل لا ہو یا جمہوریت، اس ملک کی اصل حکمران وہ اشرافیہ ہے جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کا نام دیتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان اے کلاس اشرافیہ سزا یافتہ ہو کر بھی ہمیشہ معزز کہلاتی ہے اور اِسے جیل میں بی کلاس ملتی ہے۔ ان کے حصے کی سزا جھیلنے کے لیے غریب عوام جو سی کلاس شہری نہیں بلکہ ’’F‘‘ فیل کلاس شہری موجود ہیں۔ زینب کیس میں بھی زینب کے والد پر سابق چیف جسٹس اور ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے والے ثاقب نثار نے اخبارا ت سے گفتگو پر پابندی لگا دی تھی۔ اب ثاقب نثارخود تاجِ برطانیہ کے شہری ہیں اور’’آسیہ ملعونہ‘‘ کو توہین ِ رسالت کیس میں رہا کرنے کے تاریخی فیصلے کا مزہ اُٹھانے میں مصروف ہیں۔ یہی انصاف جب تک ملک پر راج کرے گا ملک میں اس طرح کے کیس ہو تے رہیں۔ اب تو ملک میں ’’ایف اے ٹی ایف‘‘ کا قانون بھی بنایا جارہا ہے جس میں ہم اپنی تجارت کو عالمی طور پر برقرار رکھنے کے لیے ’’سزائے موت‘‘ کے قانون کو ہمیشہ کے لیے ختم کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات ملک سے جرائم کا خاتمہ کبھی بھی نہیں رہا اس کے برعکس کبھی ’’آئی ایم ایف‘‘ کبھی ’’ڈبلیو ٹی او‘‘ اور کبھی کوئی اور بین الاقوامی تنظیم کی سفارشات پر عمل کر نا رہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال سے جرائم میں اضافہ اور امن و سکون میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی ہو تی جارہی ہے۔ شبنم کیس آج بھی پاکستان میں جاری ہے اور اسے روکنے کے لیے جس ہمت اور بہادری کی ضرورت ہے وہ سیکولرز حکمرانوں میں نہ پہلے کبھی تھی نہ آج ان میں ایسی کو ئی  خوبی  نظر آرہی ہے۔