مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر

432

جب کسی جھوٹ کو بار بار سچ کہا جائے تو لوگ اُسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جھوٹ سچ بن جاتا ہے، نہیں ہرگز نہیں جھوٹ جھوٹ ہی رہتا ہے۔ عدلیہ نے نظام عدل کی پردہ پوشی کے لیے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مشاہدہ اور مطالعہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ کیونکہ قانون اندھا نہیں ہوتا۔ اندھا تو قانون فراہم کرنے والا ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اندھے پن کی آخری اسٹیج پر ہوتا ہے۔
اخباری اطلاع کے مطابق مجید اچکزئی کو ٹریفک سارجنٹ قتل کیس میں عدم ثبوت کی بنا پر آزادی کا پروانہ دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ ٹریفک سارجنٹ نے ان کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا تھا مگر اچکزئی نے ٹریفک سارجنٹ کو اپنی گاڑی سے کچل دیا تھا۔ اور وہ جاں بحق ہوگیا۔ سارجنٹ کی موت کی گواہی کسی عینی شاہد نے نہیں دی۔ کیونکہ اسے گواہی دینے کا انجام معلوم تھا۔ مگر کیمرے کو ایسا کوئی خوف لاحق نہیں ہوتا اس نے سارے منظر کو اپنی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔ قتل کی یہ ویڈیو مجید اچکزئی کو بے رحم مجرم ثابت کرنے کے لیے نا قابل تردید ثبوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر عدالت نے ویڈیو کی حیثیت کو نظر انداز کردیا اور مجید اچکزئی کی حیثیت کے مطابق فیصلہ سنایا جو ان کی بریت پر مبنی ہے۔ مجید اچکزئی اپنے علاقے کا بہت طاقتور شخص ہے کوئی عام آدمی ان کے خلاف گواہی دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ عدلیہ بھی ان کی حیثیت کے قائل ہوگئی، یہ ایک افسوس ناک بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے افسران بھی منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے شاید یہ ان کے وکیل کی کمزوری ہو۔ کہنے والوں کا یہ کہنا درست ہی لگتا ہے کہ کوئی مقدمہ کمزور نہیں ہوتا۔ مقدمہ صرف مقدمہ ہوتا ہے اس کی کمزوری اور مضبوطی کا انحصار وکیل پر ہوتا ہے۔ وکیل کمزور ہو تو مقدمہ بھی کمزور ہوتا ہے۔ کیونکہ مخالف وکیل تاخیری حربوں سے وقت کی اتنی گرد اڑاتا ہے کہ ثبوت چھپ جاتے ہیں۔ اور پھر جج قاتل کی یہ دلیل بھی مان لیتا ہے کہ مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر۔ شاید اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا کہ منصف نے قاقل کی دلیل کی بنیاد پر بریت کا فیصلہ سنایا ہو کہ مقتول خود اس کی گاڑی کے نیچے آگیا تھا۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہماری عدلیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ قبل ازیں راولپنڈی میں سرعام لڑکی کو برہنہ کرنے والے ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیا تھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ مقدمہ ابھی تک زیرسماعت ہوگا اور بالآخر ایک دن ملزمان کی یہ دلیل مان لی جائے گی کہ لڑکی نے اپنے کپڑے خود اترے تھے کیونکہ وہ دماغی طور پر کمزور ہے یوں یہ مقدمہ بھی کمزور قرار دے دیا جائے۔ حالانکہ اس واقعہ کے تمام تفصیل اور روداد کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہیں۔ مگر قانون نے مطابق فیصلہ کرنے والا تو اندھا ہوتا ہے اسے پوچھے والا کوئی نہیں جہاں احتساب کا خوف نہ ہو وہاں ایسے ہی فیصلے ہوتے ہیں۔
گزشہ دنوں عدل اعظم گلزار احمد نے فرمایا تھا کہ سرکاری اراضی کے غبن اور سرکاری پیسے میں فراڈکرنے والوں کو لمبی رخصت پر بھجنے کے بجائے گھر بھیج دینا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ مجرموں کو بریت کا پروانہ دینے والے ججوں کو گھر کیوں نہیں بھیجا جاتا۔ خدا جانے ہمارا نظام عدل تشکیل دینے والے یہ بات کب سمجھیں گے کہ عدلیہ کمزور ہو تو ہر بااختیار شخص کے خلاف دائر مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے اتنا کمزور کہ اس کے خلاف اپیل بھی دائر نہیں کی جاسکتی کیونکہ اپیل کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کسی ملزم کو سزائے موت سناتی ہیں مگر جب عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی جاتی ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جج صاحبان نے موت کی سزا سنا کر عدل کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ یوں ملزم بری ہوجاتا مگر اس کے بیس تیس سال جیل کی کوٹھری کی بھینٹ چڑھ جاتا ہیں۔ اس کا فیصلہ کوئی نہیں کرتا۔
کہتے ہیں پولیس کی اولین ذمے داری عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے مگر ہمارے ہاں تو آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ موٹروے پر ایک خاتون سے اجتماعی زیادتی پر ایک پولیس آفیسر نے یہ کہہ کر خاتون ہی کو ملزم ٹھیرا دیا ہے کہ وہ موٹر وے پر اکیلی کیوں گئی تھی گویا ان کی نظر میں خاتون ملزمان کو دعوت گناہ دینے کی مرتکب ہوئی تھی۔ عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لینے میں دنیا بھر میں مشہور ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی خاتون کو ملزم سمجھتی ہے۔