تبدیلی کی بات کرنا اب کچھ عجیب سا لگتا ہے، تبدیلی تو اس کے لیے جس کا سب کچھ لٹ گیا، ایک کو ہٹا کر دوسرے کو اقتدار دے دینا کوئی تبدیلی ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں، بچی پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتی تھی، ظلم کا دور تھا، طاقت ور کے لیے ہی زندگی کی آسائشیں تھیں، تجارت کے راستوں پر تلوار اور قبیلے کی طاقت کے زور پر قبضے کیے جاتے تھے، پھر ایک روز غار حرا نے انگڑائی لی، رہتی دنیا تک کی ایک بے مثال نہایت معتبر ہستی اٹھی اور اللہ کا پیغام لوگوں کے سامنے رکھا، یہ وہ ہستی تھی، جو یتیم پیدا ہوئی، دادا نے نام محمد رکھا کہ جسے لوگ صادق اور امین کہتے تھے۔ جس کے دیانت دار ہونے پرسب کے سب متفق تھے۔ ایسی پاک باز ہستی کبھی کسی کا حق نہ کھایا، جو مال بیچا اس مال کے سارے عیب بھی بتائے اور گاہک کے سامنے کوئی عیب چھپا کر نہیں رکھا، اللہ نے اس عمل میں بے پناہ برکت رکھی، وہ مبارک ہستی اعلان کرنے کے لیے مکہ کے پہاڑ پر چڑھی اور اللہ کے پیغام کی جانب لوگوں کو بلایا اور کہا کہ تسلیم کرلو کہ اللہ کے سوائے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اگر یہ تسلیم کرلو تو دنیا کی متاع اور ساری دولت تمہارے قدموں میں ہوگی، اس پیغام کو جس نے سمجھا اللہ نے اسے صدیق اکبرؓ بنا دیا، جس بچے نے سمجھا اللہ نے اسے حیدر کرارؓ بنا دیا، پھر زمانہ اور وقت آگے بڑھتا رہا، خاتم النبیینؐ کا قافلۂ حق پیش قدمی کرتا رہا اور معاشرے میں تبدیلی آتی چلی گئی، کعبہ کے بت ٹوٹے، ہر یتیم کو اس کا حق ملا، سود معاف ہوئے، تجارتی راستے پرامن بن گئے، خواتین کو عزت ملی، اور کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کوئی کسی کی اراضی پر قبضہ کرے، کسی خاتون کی جانب چاہے وہ تنہاء ہی کیوں نہ ہو، بری نگاہ ڈالے، اور اعلان ہوگیا کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے، کیونکہ پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ بااثر لوگوں کو ان کے جرم کے باوجود انہیں چھوڑ دیا کرتی تھیں، اس دور نے خواتین کو ایسی عزت دی کہ خاتم النبیین کی ازواج مطہرات تا قیامت امت کی مائیں کہلائیں گی، یہ ہے تبدیلی۔ تبدیلی کسی کے کاندھے پر بیٹھ کر اقتدار حاصل کرلینے اور نیب کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا نام نہیں، تبدیلی بت توڑنے اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کا نام ہے، آج کے معاشرے میں ہمارے سامنے کتنے بت ہیں جو غریبوں کو کچل رہے اور امیروں کو سلام کرتے ہیں اور ان کی چوکھٹ پر دربان بنے کھڑے ہیں۔
سانحہ موٹرے ایک روز میں نہیں ہوا، یہ معاشرہ برسوں ایسے سانحات کی آبیاری کرتا چلا آرہا ہے، کس کس کا نام لکھا جائے، جو ایسے سانحات سے گزری ہیں، کس کس مجرم کا ذکر کیا جائے جو مجرم ہونے کے باوجود محض پولیس کی کمزور تفتیش کی وجہ سے شہادتیں نہ ملنے پر بری ہوئے ہوں، کوئی ایک واقعہ؟ نہیں جناب ایسے سیکڑوں اور ہزاروں واقعات ہیں، ان سے متعلق کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، کرب ہے ایسے واقعات پر، ہاں جب حکومت وقت چاہے کہ کوئی واقعہ استعمال کیا جانا ضروری ہے تو پھر حکومت عالمی برادری سے فنڈز لینے کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کے نام پر کھڑی ہوجاتی ہے، پھر سول سوئٹی کو استعمال کیا جاتا ہے، حکومت سمجھتی ہے کہ آئی جی تبدیل کردیا جائے تو تبدیلی آجائے گی، نہیں جناب، اس کے لیے رویہ بدلنا ہوگا، قانون نافذ کرنا ہوگا، لاہور میں ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین سے پوچھنا ہوگا کہ وہ ٹائون شپ میں کس کس پلاٹ پر قبضہ کرنے میں ملوث ہیں، جس طرح سی سی پی او نے کہا کہ خاتون خود ذمہ دار ہے، بالکل اسی طرح لاہور میں قبضہ مافیا کہتا ہے کہ جس کے پلاٹ پر قبضہ ہوا ہو، اور جعلی اسٹامپ پیپر پر قبضہ مافیا کو عدالت سے حکم امتناع بھی مل گیا ہو تو وہ مالک خود اپنے پلاٹ پر قبضہ ہوجانے کا ذمے دار ہے۔
جناب وزیر اعظم، لاہور کے ایک ایک محلے کا جائزہ لیں کہ وہاں کون کون قبضہ مافیا کس کس وزیر کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں اہل اقتدار خود قبضہ مافیا ہوں اور جرائم کی سرپرستی کرتے ہوں۔ موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ شرمناک ہے اس سے بھی زیادہ شرم ناک وہ رویہ ہے جس کا اظہار سی سی پی او نے کیا۔ نااہل، کرپٹ، قبضہ مافیا اور مجرموں کے گینگ کے سرپرست ہی ایسی بات کر سکتے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ پاکستان کو فرانس سمجھ کر نکلی ہوگی اِس بیان کے بعد لوگوں میں یہ تاثر جنم لینے لگا ہے کہ جب عوام کو اپنی حفاظت خود ہی کرنی ہے تو پھر عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والا محکمہ پولیس کیوں؟ سی سی پی او نہیں جانتے کہ اسلام میں خواتین کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے اپنی جان تک قربان کر دینے کا حکم ہے۔ اگر اُنہیں علم ہوتا تو کبھی فرانس کا حوالہ نہ دیتے۔ جتنا تحفظ اسلام نے عورت کو دیا ہے، اُتنا ادیانِ عالم یا کسی معاشرے نے نہیں دیا، اگر چودہ سو سال پہلے زیورات سے لدی اکیلی عورت مکّہ سے مدینہ تک بغیر کسی خوف کے سفر کر سکتی تھی تو آج اکیلی عورت سڑک پر کیوں نہیں نکل سکتی؟ کیا انسانیت کا تقاضا یہ نہیں تھا کہ پولیس عمل داری کے جھگڑے میں پڑے بغیر فوری طور پر مدد کو پہنچتی لیکن جہاں تقرریاں سیاسی ہوں، وہاں ایسا تو ہونا ہی تھا۔