کراچی پریس کلب میں ماحولیاتی رپورٹنگ پر ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

250

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) کراچی پریس کلب کے زیراہتمام عالمی یوم اوزون کے حوالے سے بدھ کو پریس کلب میں ماحولیاتی رپورٹنگ پر ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ماحولیاتی رپورٹنگ کا مقصد صحا فیوں کو تربیت فراہم کرنا تھا،ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں،اس کے بہتر اظہار اور درپیش مسائل پر گفتگو کی۔ورکشاپ میں پرنٹ اور ۔الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔

 

ورکشاپ سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نزہت خان، ماحولیاتی ماہر شاہد لطفی، سینئر رپورٹر امر گوریرو، غلام مصطفی بلیدی،صدر کراچی پریس کلب امتیازخان فاران، سیکرٹری ارمان صابراورجوائنٹ سیکرٹری ثاقب صغیر نے خطاب کیا جبکہ خازن راجہ کامران نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ ورکشاپ کا اہتمام لکی سیمنٹ اور انوائرمنٹ کنسلٹنٹ اینڈ سروسز کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ورکشاپ میں صحافیوں کو پاکستان میں ماحولیاتی قوانین کے حوالے سے ماحولیاتی ماہرشاہد لطفی نے سلائیڈز کی مدد سے شرکا ء کو سائنسی اور ماحولیاتی صحافت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ماحول کو بہتر بنانے اور آلودگی کے خاتمے میں شعور و آگہی کی فراہمی کیلئے میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی قوانین کا اجمالی جائزہ پیش کیا ساتھ ہی ملک میں ماحولیات کے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگاہ کیا۔ ملک میں بہترین ماحولیاتی قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔شاہد لطفی نے کہاکہ اوزون کی تہہ کو مزید نقصان سے بچا نے کے لیے جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ روکنا ہو گا،سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں کمی کرنا ہو گی، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا مناسب بندوبست کرنے ساتھ ساتھ ائیرکنڈیشن پلانٹس کے بے تحاشہ استعمال کے خاتمے کے لیے سخت قانون بنا کر ان کا نفاذ کرنا ہو گا۔

اوزون کی باریک سطح انسان کی قوتِ مدافعت کے نظام، جنگلی حیات اور زراعت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔پاکستان نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ یہاں موسمیاتی شدت مثلاً بارشوں، گرمی اور خشک سالی جیسے موسمیاتی سانحات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ موسمی تبدیلو ں کے پیش نظر ہمیں اپنے ما حو لیا تی تحفظ کیلیے مناسب اقدا ما ت کر نے ہو ں گے۔حکومت کی بنیا دی ذمے دا ر ی ہے کہ ما حولیا ت کو بہتر بنا نے اور مو سمی تبدیلیوں کے پیش نظر ایسے ٹھو س اقدا ما ت کریں تا کہ آنے والی نسل صا ف اور بہتر ما حول میں زندگی بسر کرسکے۔ہماری آنے والی نسلیں ایک پر فضا ء، آلو دگی سے پاک صاف اور پر امن ما حو ل میں پر وا ن چڑ ھیں اور موسمی تبدیلیو ں سے پیدا ہو نے والے نقصا نا ت سے بھی پہلے تیاری کر کے دفاع کریں۔

ورکشاپ سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نزہت خان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک کی وجہ سے شعبہ طب میں انقلاب برپا ہوا اور کروڑوں زندگیوں کو بچایا گیا ہے مگر پلاسٹک کو زندگی کے ہر شعبے سے شامل کرنے سے مسائل میں اضافہ ہوگیا ہے۔سمندروں میں کروڑوں ٹن پلاسٹک کے جزیرے بن رہے ہیں جن کو ختم کرنے کے لئے دنیا پریشان ہے۔انہوں نے کہاکہ آلودگی سے سمندری حیات کو خطرات لاحق ہیں۔پاکستان میں پچاس ارب کے قریب سالانہ شاپنگ بیگز استعمال ہو رہے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ استعمال ہو رہے ہیں بلکہ اس تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں مائیکرو پلاسٹک نہ صرف شامل ہے بلکہ ہر انسان اوسطاً ہر ہفتے پانچ گرام پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک ہر پاکستانی کی غذا کا حصہ بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں بلکہ زیادہ تشویشناک ہے جہاں پلاسٹک نہ صرف میدانی علاقوں کو خراب کر رہا ہے بلکہ سمندر میں بھی زہریلا مواد چھوڑ رہا ہے جو آبی حیات اور زمین کی زرخیزی کو تباہ کر رہا ہے۔پاکستان میں سالانہ فی کس پانچ کلو گرام پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پلاسٹک میں ایسے کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو انسانی جسم کے اینڈوکرائن سسٹم یعنی ہارمونز پیدا کرنے والے نظام کو نقصان پہنچاتے ہیں اور پلاسٹک سے نکلنے والے کیمیکلز انسانوں میں موٹاپا اور بانجھ پن بھی پیدا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پلاسٹک بیگ کے حوالے سے لوگوں کو اپنی عادات تبدیل کرنا پڑیں گی۔میڈیا کی زمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو پلاسٹک کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرے کہ ان کے پاس اس مسئلے کے حل کے لیے کیا کیا امکانات موجود ہیں۔اس لیے کہ پلاسٹک کے یہ بیگ تو صدیوں تک ڈی کمپوز نہیں ہوتے اور زمین اور آبی ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

آج پاکستان میں درپیش سنگین ماحولیاتی مسائل پر کوئی بات نہیں کی جاتی ہے،پاکستان میں جنگلات کا کم ہونا فضائی آلودگی زہریلا پانی موسم کا تبدیل ہونا پانی کی کمی قدرتی آفات زمین کا بنجر ہونا زرعی ادویات کا اندھا دھند استعمال اور اس طرح کے دوسرے مسائل جو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ان مسائل پرسنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے میڈیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عوام میں شعور و آگہی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ورکشاپ کہ اختتا می سیشن سے کراچی پریس کلب کے سینئر ممبرو، سینئر رپورٹر امر گوریرو، غلام مصطفی بلیدی نے ماحولیاتی رپورٹنگ کے حوالے سے شرکا ء سے اپنے تجربات شیئر کیے اور پاکستان میں ہو نے والی ماحولیاتی تبدیلوں کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔

ورکشاپ کہ اختتام پر کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران،سیکرٹری ارمان صابر،جوائنٹ سیکر ٹری ثاقب صغیر،گورننگ باڈی کے رکن زین علی،راجہ کامران نے تربیتی ورکشاپ کے کامیاب انعقاد پر ماہر ماحولیات شاہدلطفی، ڈاکٹر نزہت خان سمیت دیگر مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا،انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ورکشاپس کے انعقادسے صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں اہم آگاہی حاصل ہوتی ہے۔کراچی پریس کلب کے سیکرٹری ارمان صابر نے کہا کہ ماحولیات رپورٹنگ انسانی زندگی سے متعلق ہے اور اس کو کرائم اور سیاسی رپورٹنگ کے مساوی اہمیت دی جائے۔ ورکشاپ کے بعد صحافیوں کو ماحولیاتی رپورٹنگ میں مزید موئثر طریقے سے انجام دینے میں مدد ملے گی،انہوں نے کہا کہ کر اچی پریس کلب آئندہ بھی اپنے ارکان کے لئے اس طرح کی ورکشاپ کا انعقاد کرتی رہی گی۔

ورکشاپ میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔آخر میں کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران،سیکر ٹری ارمان صابر،جو ائنٹ سیکرٹری ثاقب صغیر، خازن راجہ کامران اور زین علی نے ورکشاپ میں شریک مہمانوں شاہد لطفی، ڈاکٹر نزہت خان اور، سینئر رپورٹر امر گوریروو کو کراچی پریس کلب کی اعزازی شیلڈ اورشرکاء کو اسناد پیش کئے گئے۔

واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں زمین کو سورج کی تباہ کن تابکار شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی اوزون لیئر کی حفاظت کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے جس کا مقصد عوام الناس میں شعور کی بیداری ہے۔

آکسیجن اور اوزون کے مالیکیولز میں ایک ہی عنصر کے بالترتیب 2 اور 3 اجزاء حصہ لیتے ہیں۔ اوزون سطحِ زمین سے 15 سے 55 کلومیٹر بلند ہوتی ہے۔سن 70ء کی دہائی میں سب سے پہلے عالمِ انسانیت کو یہ علم ہوا کہ اوزون کی یہ تہہ انسانی سرگرمیوں، آلودگی اور دیگر مسائل کے باعث متاثر ہو رہی ہے۔سائنسدانوں کے مطابق اگر اوزون کی تہہ کو اِسی طرح نقصان پہنچتا رہا تو دْنیا بھر میں موسم انتہائی شدید گرم اور شدید سرد ہوسکتا ہے۔ بڑے بڑے گلیشیئرز کا پگھلنا اور گرین ہاؤس افیکٹ جیسے مسائل بڑھ جائیں گے۔

عالمی ادارے اقوامِ متحدہ نے سن 1994ء کو ایک قرارداد منظور کی جس میں 16 ستمبر کو اوزون کی حفاظت کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا۔یہ دن منانے کا مقصد اوزون کی حفاظت کیلئے عزم کو تقویت فراہم کرنا ہے۔