اب نواز شریف موضوع بن گئے

300

پورے ملک کے میڈیا، اسمبلی اور عدلیہ میں نواز شریف زیر بحث ہیں۔ایک روز نواز شریف کی ضمانت منسوخ ہوئی پھر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوئے اور گرفتاری کا حکم دیا گیا ہے لیکن کیسے۔ پاکستانی عدالتوں کو بھی معلوم ہے اور حکمرانوں کو بھی کہ لندن سے قتل، دہشت گردی یا منی لانڈرنگ جیسے مقدمے کے کسی ملزم یا مجرم کو پاکستان لانا ان کے بس میں نہیں ہے۔ نہ ہی وہ الطاف حسین کو لا سکے اور نہ ہی اسحاق ڈار کو اب نواز شریف کو واپس لانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کے وارنٹ جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ 22 ستمبر کے بعد نواز شریف اپنے نمائندے کے ذریعے بھی پیروی نہیں کر سکیں گے۔سماعت کے دوران ججز نے اپنی آزادیٔ اظہار رائے کا کھل کر مظاہرہ کیا اور کہا کہ بیرون ملک جانے والے نے سرجری کرائی نہ اسپتال میں داخل ہوا۔ عدالت سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں مانگی۔ ججز نے ریمارکس دیے کہ قانون کا بھگوڑا کسی رعایت کا مستحق نہیں۔ ججز نے یہ وضاحت نہیں کی کہ قانون کا صرف ایک بھگوڑا کسی رعایت کا مستحق نہیں یا اور بھگوڑوں کے لیے بھی یہی قانون اور اصول نافذ کیا جائے گا۔ ایک جانب پورے ملک میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ جنسی زیادتی کے مجرموں کے خلاف کون سی سزا نافذ کی جائے اور دوسری جانب ایف اے ٹی ایف قوانین منظور کرائے جا رہے ہیں۔ ایسے میں میڈیا پر نواز شریف کو زیر بحث لانے کا مقصد ان معاملات سے توجہ ہٹوانا ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند روز قبل میڈیا کا موضوع کوئی اور تھا سب چیئرمین سی پیک عاصم باجوہ اور ان کے اثاثوں کو زیر بحث لا رہے تھے کہ موٹر وے کا سانحہ پیش آگیا اور سب اس پر بات کرنے لگے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا کسی ایک معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے بجائے روز نئے ایشو کو اچھالنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اسے عام زبان میں روز نیا منجن بیچنا کہا جاتا ہے۔ دس روز قبل کا گرما گرم موضوع عاصم سلیم باجوہ تھے پھر سانحہ موٹر وے اور اس کے مجرموں کو سزائیں اور اب نواز شریف ہیں۔ ن لیگ نے سارا ملبہ حکومت اور عدلیہ پر ڈالا ہے اور کہا کہ نواز شریف کو ہم نے نہیں ان دونوں نے بھیجا ہے۔ اب عدالتوں اور حکومت کا امتحان ہے وہ قانون کے کتنے بھگوڑوں کو ملک واپس لاتے ہیں۔