بچھڑا کچھ اس ادا سے

328

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں بنکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونینز ملک میں مزدور تحریک کا ہر اوّل دستہ تھیں۔نواز شریف کے دورِ حکومت میں شروع کی گئی نجکاری ،ڈاؤن سائزنگ اور چھانٹیوں نے ان ٹریڈ یونینز کا زور توڑنے اور ملازمین کو بے یارومددگار کرنے کے لیے اس پر تابڑتوڑ حملے کیے۔بنکس کی ٹریڈ یونینز کو دیوار سے لگانے کے مذموم مقاصد کے حصّول کے لیے سب سے زیادہ مزدور دشمن قانون سازیاں اسی دور میں کی گئیں ،جن میں بنکنگ کمپنیز آرڈیننس مجریہ 1962 کی شق 27Bہے جس نے اس صنعت کی ٹریڈ یونین کے لیے زہر کا کام کیا۔نواز شریف دورِحکومت اپنے انجام کو پہنچا مگر ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے امپورٹڈ وزیر اعظم شوکت عزیزنے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔اس زمانے میںبنکنگ انڈسٹری کی لیبر یونینز کو یہ فخرحاصل ہے کہ اْس نے کئی نامور مزدور رہنما اس ملک کو دیئے جن میںسرفہرست سندھ کے موجودہ وزیر محنت کے والد محترم عثمان غنی شہید کا نام آتا ہے۔
عثمان غنی شہید نے1970 کی دہائی میں مسلم کمرشل بنک میں ملازمت اختیار کی۔وہ 1948 کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے جبکہ میٹرک NJVہائی اسکول اور گریجویشن کراچی یونیورسٹی سے کیا تھا۔وہ ایک پڑھے لکھے باکردار انسان تھے اور مزدور طبقات پر ہونے والے مظالم کے خلاف اْن کی سوچ اْنہیں ٹریڈ یونین تحریک میں لے گئی۔وہ مسلم کمرشل بنک ایمپلائر یونین سی بی اے کے 1972 میں صدر منتحب ہوئے اور اْن کی یہ وابستگی آخری سانس تک رہی۔
جب نواز شریف سے نجکاری شروع کی تو مسلم کمرشل بینک سب سے پہلے اْس کی زد میں آیا۔عثمان غنی شہید نے مندرجہ بالا دو ادوار میں بنکس کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں اور مزدور تحریک میں بھی بھرپور حصّہ لیا وہ پاکستان کی بنکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین کے پہلے رہنما تھے جنہیں مزدور دشمن قوتّوںنے دن دھاڑے شہید کیا۔عثمان غنی فائٹر ٹریڈ یونینسٹ کے نام سے یاد رکھا جانا چاہیئے۔اْن کی تمام تر زندگی مزدوروں کے حقوق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم تلے جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں گزری۔وہ ایک انتہائی فعال سیاسی رہنما اور پی پی پی سے تعلق بھی رکھتے تھے۔انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کی قیادت میں ملک میں جمہوریت کی بحالی اور اْس کے استحکام کی جدوجہد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اس ضمن میں کئی بار پابند سلاسل بھی رہے۔اْنہیں یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے دیگر ترقی پسند ساتھیوں کے ہمراہ شہید بینظیر بھٹو کو اس امر پر قائل کیا کہ پارٹی کا لیبر ونگ قائم کیا جانا چاہیئے اور اس طرح پیپلز لیبر بیورو کا قیام عمل میں آیا۔عثمان غنی شہید کی پہلی گرفتاری 1974 میں اْس وقت عمل میں آئی جب وہ مسلم کمرشل بنک کے ملازمین کے لیے پرافٹ بونس کے اجراء کے لیے احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے پھرقید وبند کی صعوبتیں اْن کا اوڑھنا بچھونا بن گئیں اور اْنہیں کمرشل بنکس کی ٹریڈ یونینزمیں احتجاجی تحریکوں اور ملازمین کا ہیرو تصور کیا جاتا تھا۔عثمان غنی شہید کے مزدور دوست اور سامراجی سرمایہ دارانہ نظام دشمن روّیہ نے جہاں اْنہیں محنت کشوں میں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا تو دوسری جانب عوام دشمن قوتّیں اْن کی جان کی دشمن بھی بن گئیں۔عثمان غنی شہید کراچی کے قدیم علاقہ چنیسر گوٹھ کے رہائشی تھے اور اْنہو ں نے اپنی بھرپور سیاسی زندگی بھی اسی علاقہ میں گزاری۔پی پی پی کے پلیٹ فارم سے اْنہوں نے اسی حلقہ سے اسمبلی کے انتخابات بھی لڑے اور مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔وہ اس حلقہ کے سرکردہ سیاسی رہنماو ں میں بھی شمار ہوتے تھے یہ وہی حلقہ ہے کہ جہاں اْن کی شہادت کے بعداْن کے سب سے بڑے فرزند سعید غنی نے بھی سیاست کا آغاز کیا اور صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی اور آج صوبائی وزیر محنت و تعلیم کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔
ستمبر کا مہینہ اتفاق اور بدقسمتی سے ایک
(باقی صفحہ7پر)
ایسے مہینے میں شمار کیا جاتا ہے کہ جس میں متعدد سانحات نے جنم لیا۔قائداعظم محمد علی جناح اسی ماہ ہم سے جْدا ہوئے،علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری بلدیہ کراچی کا اندوہناک واقعہ جس میں 260غریب بے قصور مزدور جل کر راکھ ہوئے،نائن الیونکا واقعہ ستمبر ہی میں ہوا جب کہ معروف مزدور رہنما عثمان غنی شہید بھی اسی مہینہ میں شہید کئے گئے۔ 1995 میںستمبر کی 17تاریخ کو عثمان غنی شہید چنیسر گوٹھ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے اپنے دفتر واقع ہیڈآفس مسلم کمرشل بنک کے لیے روانہ ہوئے ابھی اْن کی کار کالا پْل پہنچی ہی تھی کہ پْل پر گھات لگائے ہوئے مسلح قاتلوں نے اْن کی کار کو گھیر لیا اور اْنہیں ہم سے چھین لیا(انا للہ و انا الہ راجعون)۔
یہ درست ہے کہ عثمان غنی شہید آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدوجہد اور قربانیوں کی جس شمع کو انہو ں نے روشن کیا تھا وہ اب بھی پوری آب و تاب کے ساتھ فروزاں ہے اور آج ہزاروں محنت کشوں کی آنکھیں اْن کی یاد میں نم ناک ہیں۔