بلیک ہول ایک پراسرار مقام

151

محمد شاہ زیب صدیقی
ہماری کائنات حیرتوں سے بھری ہوئی ہے، شاید اسی خاطر جے بی ایس ہیلڈن نے کہا تھا ’’یہ کائنات اتنی پراسرار نہیں جتنا تم سوچتے ہو، بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ پراسرار ہے جتنا تم سوچ سکتے ہو۔‘‘
انسان نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے اوپر تاروں بھرے آسمان کو حیرت سے تکتا آرہا ہے۔ ہماری کائنات کو پراسرار بنانے میں اس کی وسعتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر کائنات وسیع نہ ہوتی اور اس میں طرح طرح کے مناظر نہ ہوتے تو شاید ہم جلد ہی اس سے اکتا جاتے۔ کائنات کے تعجبات کا ذکر کیا جائے تو ان میں بلیک ہولز صفِ اول پر دکھائی دیتے ہیں۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب کوئی ستارہ اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہوتا ہے تو اس کے مرکز میں موجود ہائیڈروجن نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن کے باعث لوہا پیدا کرچکی ہوتی ہے، جو اس کےلیے موت کا پیغام ثابت ہوتا ہے۔ جس کے بعد ستارہ ایک زوردار دھماکے سے پھٹتا ہے۔ اس دوران اس ستارے سے نکلنے والی روشنی/ توانائی اربوں ستاروں کے برابر ہوتی ہے۔ اس عمل کو سپر نووا (Supernova) کہا جاتا ہے۔
ایک ستارے میں دو قسم کی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ ایک قوت گیسز کے پریشر کی ہوتی ہے، جو مرکز میں موجود نیوکلیئر ری ایکشن کے باعث ستارے کو پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔ جبکہ دوسری قوت کشش ثقل کی ہوتی ہے جو اس ستارے کو اندر کی جانب کھینچ رہی ہوتی ہے۔ اربوں سال تک یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتی ہیں، مگر سپر نووا کے بعد گیس پریشر والی قوت ختم ہوجاتی ہے اور صرف ستارے کی کشش ثقل رہ جاتی ہے، جس وجہ سے ستارہ اپنے مادے کو اندر کی جانب کھینچنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل کے باعث ستارے کی کثافت بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور آخرکار ستارہ لامتناہی حد تک کثیف ہوجاتا ہے۔ مرکز میں جمع شدہ مادہ سنگولریٹی (singularity) بن کر زمان و مکاں کی چادر میں شدید قسم کا خم پیدا کردیتا ہے، جس کی وجہ سے ستارہ بلیک ہول کا روپ دھار لیتا ہے۔
عوام میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ بلیک ہول میں اتنی شدید کشش ثقل ہوتی ہے کہ کسی بھی شے کو دور سے کھینچ کر ہڑپ کرسکتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جب کوئی ستارہ بلیک ہول کا روپ دھار لیتا ہے تو اس کی کشش ثقل اتنی ہی ہوتی ہے جب وہ ایک ستارہ تھا۔ بس فرق یہ آجاتا ہے کہ اب اس کے گرد ایک دائرہ بن جاتا ہے جس کو ایونٹ ہورائزن (Event Horizon) کہا جاتا ہے۔ اس مقام کے اندر آجانے والی شے کو بلیک ہول نہیں چھوڑتا، چاہے وہ روشنی کیوں نہ ہو۔ اس مقام سے باہر موجود اشیا کو بلیک ہول ایک ستارے جتنی کشش ثقل سے ہی کھینچتا رہتا ہے۔ اس مقام پر بلیک ہول کی شدید گریویٹی کے باعث وقت تھم جاتا ہے۔ کیونکہ تجربات یہ بھی بتاتے ہیں کہ گریویٹی وقت پر اثرانداز ہوتی ہے، لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ آپ ایونٹ ہورائزن پر چند ماہ گزار کر جب زمین پر پہنچیں تو آپ کا سامنا چند بوڑھے لوگوں سے ہو اور آپ حیرت زدہ رہ جائیں جب آپ کو معلوم ہوکہ آپ کے سامنے بوڑھے انسان دراصل آپ کے پوتے اور نواسے ہیں، جبکہ آپ خود اس وقت جوان ہوں گے۔ ایسا اس وجہ سے ہوگا کہ آپ ایونٹ ہورائزن پر جو چند ماہ گزار کر آئے زمین والوں کےلیے وہ کئی دہائیوں کے برابر ہیں۔ اس مظہر کو سائنس فکشن فلم ’’انٹر اسٹیلر‘‘ دیکھ کر آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
ایونٹ ہورائزن کو آپ ایک آبشار کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مچھلی کےلیے پانی ایک میڈیم ہے، لہٰذا مچھلی پانی سے باہر نہیں آسکتی۔ اگر کوئی مچھلی پانی کے ساتھ تیرتے ہوئے کسی آبشار کے ساتھ نیچے گرجائے تو اس کو واپس اونچائی پر پہنچنے کےلیے اتنی رفتار چاہیے ہوگی کہ وہ زمین کی کشش ثقل کا مقابلہ کرسکے۔ بالکل اسی طرح ایونٹ ہورائزن کائناتی آبشار ہے۔ کائنات میں موجود ہر شے زمان و مکاں کی چادر پر تیر رہی ہے۔ ایونٹ ہورائزن سے کوئی شے جب بلیک ہول میں گرتی ہے تو اس کا رابطہ پوری کائنات سے کٹ جاتا ہے۔ اس کو واپس کائناتی سمندر میں آنے کےلیے روشنی کی رفتار سے بھی تیزرفتار چاہیے ہوتی ہے۔
بلیک ہول ایسے درندے ہیں جو ہمارے سائنسی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایونٹ ہورائزن پر پہنچ کر ہمارے سائنسی قوانین بے بس ہوجاتے ہیں۔ بلیک ہول تین قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے بلیک ہولز کو Miniature بلیک ہولز کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ ایٹمز کے سائز کے بلیک ہولز ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ بگ بینگ کے فوراً بعد ہماری کائنات میں یہ ننھے بلیک ہولز موجود تھے، بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان بلیک ہولز کو ہم لیبارٹری میں بھی بنا چکے ہیں۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ بلیک ہولز جتنے چھوٹے ہوتے ہیں اتنی جلدی اڑ جاتے ہیں (یعنی evaporate ہوجاتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ننھے بلیک ہولز لیبارٹری میں ایک سیکنڈ کے اربویں حصے کےلیے بنے اور ختم ہوگئے۔ ان ننھے بلیک ہولز کے بعد اسٹیلر بلیک ہول کی باری آتی ہے۔ یہ درمیانے قسم کے بلیک ہولز ہمارے سورج سے تیس گنا بڑے ہوتے ہیں، ایک کہکشاں میں ایسے بلیک ہولز لاکھوں کی تعداد میں ہوسکتے ہیں کیونکہ سورج سے بڑے ستارے تباہ ہونے کے بعد بلیک ہولز کی اِسی قسم میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کے بعد تیسری قسم کے بلیک ہولزآتے ہیں جنہیں Supermassive بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ یہ ہماری کائنات کے انتہائی خطرناک درندے ہیں جو اپنی پیدائش سے لے کر اب تک اپنے آس پاس موجود ہر شے کو ہڑپ کرکے انتہائی بڑے ہوچکے ہیں۔
اس وقت کائنات کا سب سے دیوہیکل بلیک ہول ہمارے سورج سے 66 ارب گنا بڑا ہے، جو کہ TON618 نامی قوازار میں موجود ہے۔ ہر کہکشاں کے وسط میں ایسا بلیک ہول موجود ہوتا ہے۔ ہماری کہکشاں کے مرکز میں Sagittarius A نامی دیوہیکل بلیک ہول موجود ہے، جو ہمارے سورج سے 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔
کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ 1783 میں جان مشل نے جب ریاضی کی مساواتوں کے ذریعے بلیک ہول کی پیش گوئی کی تب بلیک ہول کے کوئی آثار اور ثبوت ہمارے پاس نہیں تھے۔ یہ ایک تصوراتی شے تھی۔ اسی خاطر بلیک ہول سیکڑوں سال سے انسانوں کےلیے تجسس کا باعث رہا۔ لیکن اپریل 2019ء میں پہلی بار سائنسدان Massier 87 نامی کہکشاں کے وسط میں موجود ایک دیوہیکل بلیک ہول کی تصویر بنانے میں کامیاب ہوئے۔ سورج سے 72 کروڑ گنا بڑے اِس بلیک ہول کی تصویر کو بنانے کےلیے زمین کے مختلف کناروں پر موجود 8 بڑی ریڈیو ٹیلی اسکوپس کو 11 دن تک بلیک ہول کی جانب کیے رکھا، جنہوں نے 52 لاکھ گیگابائٹس ڈیٹا جمع کیا، جس کو 200 سائنسدانوں نے 2 سال تک دن رات ایک کرکے interferometry تکنیک کے ذریعے یکجا کیا اور تاریخ انسانی میں بلیک ہول کی پہلی تصویر بنانے میں کامیاب ہوئے۔
ہماری کائنات پراسرایت کا سمندر ہے، اس کے ہر گوشے سے ایسے ایسے حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کائنات کے سمندر میں جوں جوں ہم کھوجنے کی نیت سے اترتے جارہے ہیں، ویسے ہی ہماری پیاس بڑھتی چلی جارہی ہے۔ فی الحال بلیک ہول کائنات کے وہ باسی ہیں جو ہمارے سائنسی اصولوں کو توڑتے رہتے ہیں، لیکن سائنسدان پرامید ہیں کہ ہم جلد ایسے سائنسی اصول دریافت کرلیں گے جن کے ذریعے ہم ان کو قابو میں رکھ سکیں۔