ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے

390

 

 

؎
۔6اگست 1945ء کو جاپان پر ایٹم بم گرایا گیا تھا۔ 6 اگست 2020ء کی صبح ساڑھے 5 بجے ایک اور ایٹم بم گرا۔ کم از کم ہمارے لیے تو ایٹم بم ہی تھا۔ اطہر ہاشمی صاحب کے فون نمبر سے کال آرہی تھی صبح کے وقت اس کال کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آگیا تھا۔ جی حماد بول رہا ہوں ابو کا تھوڑی دیر پہلے انتقال ہوگیا ہے۔ ہم نے اناللہ پڑھا اور اس سے کہا کہ تھوڑی دیر میں پہنچتا ہوں۔ رات میں ہاشمی صاحب سے بات ہوئی تھی۔ منگل اور بدھ کو وہ دفتر نہیں آئے تھے۔ منگل کو ہم نے یہ سوچا کہ چوں کہ پیر کو ہم غائب ہوئے تھے عید کے تیسرے دن کی چھٹی منائی، تو انہوں نے منگل آج چھٹی کرلی لیکن جب بدھ کو بھی نہیں پہنچے تو گاڑی کا انتظام کرنے والے صاحب سے پوچھا انہوں نے بتایا کہ جی ان کی طبیعت خراب ہے۔ فوراً فون ملایا ہاشمی صاحب ہی نے اٹھایا اور بتایا کہ پہلے والی کمزوری ہوگئی تھی۔ اب کافی بہتر ہوں، کل آئوں گا ان شاء اللہ۔ ہم نے کہا حلوہ کھائیں جوس پئیں۔ کہنے لگے کہاں ہے حلوہ… ہم نے کہا کل آئیں کھلاتے ہیں۔ لیکن وہ تو تھوڑی دیر بعد اکیلے ہی حلوہ کھانے چلے گئے۔ کئی احباب نے سوال کیا کہ ہاشمی صاحب کے ساتھ آپ کی وابستگی بھی طویل تھی۔ آپ نے کچھ نہیں لکھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ارادتاً نہ لکھتے، لیکن کچھ غیر مرئی زنجیروں میں جکڑے قلم کو جھٹکے سے اٹھایا اور پھر شروع ہوگئے۔ ہاشمی صاحب پر کیا لکھا جائے کسی کو یہ بتایا جائے کہ وہ بڑے عالم تھے، اردو پر عبور تھا، فارسی جانتے تھے، عربی بھی اور تاریخ بھی۔ وہ سیاست پر بھی عبور رکھتے تھے۔ وہ اردو کا املا درست کراتے تھے۔ لیکن یہ باتیں ہم کس کو بتائیں یہ تو سب ہی جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ باتیں کرنا چمکتے ہوئے سورج کے وجود کی اطلاع دینے کی حماقت ہوگی۔ تو پھر کیا بتایا جائے۔ چلیں یوں کرلیتے ہیں کہ اپنی کہانی سناتے ہیں جو بس صرف 37 برس پر محیط ہے۔ ہاں یہ دو چار برس کا قصہ نہیں۔ فروری 1983ء میں ہمارے والد اور والدہ ہندوستان میں رشتے داروں سے ملنے جارہے تھے ان کو سٹی اسٹیشن چھوڑا تو یاد آیا کہ نصیر سلیمی صاحب نے کہا تھا اگر جسارت جانا ہے اور کچھ سیکھنا ہے تو کسی بھی روز چلے جائو میں نے صلاح الدین صاحب سے بات کرلی ہے۔ چناں چہ ہم سیدھے دفتر جسارت پہنچے یہاں تھوڑی دیر انتظار کے بعد صلاح الدین صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ چند سوالات پوچھے پھر کہا کہ کام کے آدمی ہوئے تو بٹھالیں گے۔ دوسرا جملہ اس وقت انہوں نے ادا نہیں کیا تھا لیکن ہم سمجھ گئے تھے کہ ورنہ چلتا کردیں گے۔ لیکن ہوا یوں کہ نیوز ایڈیٹر آفتاب سید کے سامنے پیش کردیا گیا۔ انہوں نے کہا لیجیے اطہر ہاشمی صاحب ایک اور جماعتی آگیا… کام دیجیے انہیں۔ اطہر ہاشمی صاحب نے انگلی پکڑی۔ عملاً تو نہیں لیکن کام کے اعتبار سے۔ پوچھا ترجمہ کرلیتے ہو۔ ہم نے کہا کوشش کرتا ہوں۔ یونیورسٹی میں تو کیا ہے… تو یہ لو… انہوں نے چھوٹی چھوٹی کچھ خبریں پکڑا دیں یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہم نے کیا کیا گل کھلائے ہوں گے لیکن استاد جی نے کبھی مذاق اڑا کر غلطی کی اصلاح نہیں کی۔ بلکہ اپنے پاس بلاتے اور پوچھتے یہ کیا لکھ دیا میاں… پھر اس کا مطلب بتاتے ڈکشنری دیکھنے کا مشورہ دیتے اور دو تین دن بعد اس لفظ کا مطلب پوچھتے۔
ہاشمی صاحب کی مذاق کی عادت کا پتا نہیں تھا کچھ دن بعد والد صاحب کی واپسی کی اطلاع ملی ان کی آمد سے ایک رات قبل گھر پہنچ کر ہاشمی صاحب کو فون کیا۔ جی برخوردار کیا ہوا کل میچ ہے۔ جی نہیں بس اگر صبح پانچ بجے ایک کال کرکے اٹھادیں تو میں اسٹیشن چلا جائوں گا۔ جی بہتر۔ کہا اور فون رکھ دیا۔ ہمیں لگا کہ مذاق کررہے ہیں دوبارہ فون کردیا۔ تو کہنے لگے کہ ہم سمجھے تم مذاق کررہے ہو میاں یہاں بھی لوگ ڈیڑھ دو بجے چلے جاتے ہیں، ان کی اس عادت سے ہم جلد ہی واقف ہوگئے لیکن بہت سے ساتھی سادگی میں یا ناسمجھی میں اب تک نہیں سمجھے تھے۔ ایک مرتبہ خالد خورشید نیوز ڈیسک پر کام کے دوران بولے۔ ہاشمی صاحب آج آپ کے ساتھ گھر جائوں گا۔ ہاشمی صاحب نے کہا جی بہتر… اور کام میں لگ گئے پونے دو بجے دفتر سے نیچے اترے اور برنس روڈ کی طرف چل پڑے۔ خالد خورشید نے گھبرا کر کہا کہ… وہ موٹر سائیکل نہیں ہے۔ ہاشمی صاحب نے کہا کہ نہیں وہ خراب تھی۔ اب خالد خورشید صاحب کی حالت دیدنی تھی۔ لیکن انہوں نے جو مطالبہ کیا تھا وہ تو یہی تھا کہ آپ کے ساتھ چلوں گا۔ تو یہ کام ویگن میں کرنا پڑا۔
ایک دفعہ بڑے اردو اخبار کے ایڈیٹر کے ساتھ تقریب میں بیٹھے تھے ان کا انداز تھا کہ ہر کسی کا مذاق اڑا رہے تھے اطہر ہاشمی صاحب سے تعارف ہوا تو جسارت اور جماعتیوں کا مذاق اڑانے لگے۔ کھانا کھاتے ہوئے پھر سامنا ہوا تو ہاشمی صاحب نے سوال کر لیا سنا ہے آپ کے دفتر میں ہر جگہ کیمرے لگے ہیں باتھ روم میں بھی ہیں کیا…؟ انہوں نے عجیب سا منہ بنایا۔ ہاشمی صاحب نے اس موقع پر سگریٹ بھی سلگائی اور دھواں اپنے منہ سے چھوڑتے ہوئے کہا میں باتھ روم کا تو مذاق کر رہا تھا۔ لیکن چونکہ کئی لوگ موجود تھے اس لیے سگریٹ اور دھوئیں کے بادل (سگریٹ کے) کم ہوتے ہی پوچھا ہاشمی صاحب کیا حال ہیں ویسے باتھ روم والی بات مذاق ہی تھی ناں…!! ہاشمی صاحب نے بتایا کہ تقریب سے جاتے ہوئے گیٹ پر بھی مل گئے اور رازداری سے پوچھنے لگے تو ہاشمی صاحب زور سے بولے باتھ روم میں کوئی کیمرہ نہیں مذاق تھا بھائی۔ ویسے یہ بڑا بھاری مذاق تھا۔ ان صاحب کے سامنے کوئی آواز نہیں نکالتا تھا۔
اطہر ہاشمی صاحب کے بارے میں کوئی یہ کہے کہ ہم انہیں اچھی طرح جانتے ہیں تو یہ غلط ہوگا۔ ہم سینتیس برس میں اچھی طرح نہیں جان سکے۔ ہر مرتبہ ایک نیا پہلو سامنے آتا آخر دن تک یہی ہوتا رہا۔ بڑے سے بڑا فیصلہ کسی جذباتی اور ہیجانی کیفیت کے بغیر نہایت سکون سے کرتے۔ ایک زمانے میں منتظم اعلیٰ سید ذاکر علی کسی کی شکایت کی وجہ سے ہاشمی صاحب سے ناراض تھے۔ بار بار کہتے تھے کہ انہیں نکال دوں گا۔ ایک دن ہاشمی صاحب کو کمرے میں بلایا کچھ دیر بات ہوئی ہاشمی صاحب واپس آئے کام کرتے رہے۔ اگلے روز نہیں آئے اس کے اگلے روز بھی نہیں آئے پھر ان کو فون کیا گیا تو بتایا کہ میں نے استعفا دے دیا ہے۔ چند ہی روز بعد ذاکر صاحب تبدیل ہوگئے اور معظم علی قادری آگئے تو انہیں گھر سے بلوایا گیا اسی طرح کام کرنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ نہ سابق کی برائی کی اور نہ نئے والے کی تعریفیں، کام میں لگ گئے۔
(جاری ہے)