وزیراعظم عمران خان باتیں بہت ہی خوب کرتے ہیں، لیکن جب ان پر عمل کا وقت آتا ہے، تو ’’گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا‘‘ کے مصداق اقدام تو کیا نیت کے اظہار سے بھی کترانا شروع کردیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کیے جانے کے موقع پر دیکھا گیا، جب تحریک انصاف نے مجموعی وفاقی بجٹ کا صرف اعشاریہ ایک فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا۔ حالاں کہ وزیراعظم عمران انتخابات سے قبل اپنی لچھے دار تقریروں میں اقتدار ملنے پر ملک کے مجموعی بجٹ کا 20 فیصد تعلیم کے شعبے پر لگانے کا پر؎چار کرتے رہے تھے۔ پھر انہوں نے قتدار میں آتے ہی پہلی تقریر کے دوران ڈھائی کروڑ بچوں کے اسکول نہ جانے کا شکوہ اور شعبہ تعلیم کو ترقی دینے کا دعویٰ کیا تھا۔ ساتھ ہی وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا بھی اعلان سامنے آیا تھا، لیکن شاید وہ بھی سابق صدر آصف علی زرداری کے فلسفے ’’وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے‘‘ پر یقین رکھتے ہیں یا حالی کے مصرع ’’وہ وعدہ نہیں جو وفا ہوگیا‘‘ ہی کو درست سمجھتے ہیں۔ ماضی کی اس داستان کو چھیڑنے کی وجہ وزیراعظم کے کچھ تازہ فرمودات ہیں، جن میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے اقتدار کے پہلے سال معیشت کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کی اور دوسرا سال کورونا وبا کی نذر ہوگیا، جس کے باعث تعلیمی شعبے پر زیادہ توجہ نہیں دے سکا۔ اب ہم نے تعلیم پرتوجہ مرکوز کرنی ہے۔ ایسٹ ریکوری یونٹ بدعنوان عناصر سے رقوم نکلواتا ہے۔ وصول کی گئی یہ رقم تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے قانون سازی کریں گے‘‘۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم تعلیم کے لیے اس سال بھی کچھ نہیں کریں گے، جیسا کہ وہ وفاقی تعلیمی بجٹ میں اشارہ دے چکے ہیں۔ تعلیم ان بنیادی ضروریات میں سے ہے، جو پاکستانی عوام کے ٹیکسوں کی کلیدی حق دار ہے۔ کیا کوئی ذمے دار وزیراعظم اس کے لیے ایک مبہم اور غیریقینی ذریعہ آمدن پر تکیہ کرسکتا ہے؟ ایسٹ ریکوری یونٹ کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے۔ وزیراعظم حزب اختلاف کے جن بڑے رہنماؤں کو بدعنوان قرار دیتے آئے ہیں، یہ ادارہ آج تک ان سے ایک روپیہ نہیں نکلوا سکا، تاہم تحریک انصاف کے حامی اب تک اس ادارے سے کسی بڑی خبر کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ویسے بھی وزیراعظم کے بنائے ہوئے اس ادارے کی قانونی حیثیت پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کے دوران مختلف سوالات اٹھائے گئے تھے۔ جج صاحب کے وکیل منیر اے ملک نے کہا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کا قیام قانون کے خلاف ہے اور وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں۔ اس یونٹ کی تشکیل کے لیے قوانین میں ترمیم ضروری تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ پارلیمان سے باضابطہ قانون سازی کے بغیر ایسٹ ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کیس کے تفصیلی فیصلے میں اس ادارے کے حوالے سے بھی پیراگراف شامل ہونے کی توقع ہے، اس لیے اس وقت تک یہ ادارہ خود اپنے وجود کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہے، جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے سے قبل ہر روز ٹیلی وژن اسکرین پر نمودار ہونے والے ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر بھی 2 ماہ سے غائب رہنے لگے ہیں، اس صورت حال میں یہ ادارہ اپنے آپ کو باقی رکھ پائے تو بڑی بات ہے، تعلیم جیسے اہم شعبے کی کفالت کیا کرے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وزیراعظم اپنے حکومتی اخراجات میں کٹوتیاں کرکے تعلیم پر خرچ کریں۔ خاص طور پر اعلیٰ تعلیمی بورڈ (ایچ ای سی) پر کچھ نظر کرم کریں۔ وزیراعظم نے پاک آسٹریا فیکوچ شول انسٹیٹیوٹ آف اپلائیڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں زور دیا ہے کہ ترقی کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن کیا انہوں نے سوچا کہ ان کے دور میں ملکی جامعات بین الاقوامی رینکنگ میں مسلسل تنزل کا شکار ہوئی ہیں اور جو اعلیٰ تعلیمی ادارے حکومت کی عدم توجہ اور وسائل کی کمی کے باعث خود کو بین الاقوامی سطح پر منوا نہیں پا رہے، وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیں گے؟ پاکستان میں جامعات کے لیے اپنے پروگرام جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ تحقیق دور کی بات ہے جامعات کے لیے اپنے تدریسی اخراجات پورے کرنا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس کے لیے طلبہ پر فیسوں کا اضافی بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہونہار غریب نوجوان جو اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے خواہاں ہیں، وہ کیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رخ کریں۔ آسمان سے باتیں کرتی اس مہنگائی میں والدین اپنے بچوں کا پیٹ بھریں یا انہیں اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ وزیراعظم کو اس جانب توجہ دینی چاہیے، لیکن انہوں نے الٹا قوم کو موردِ الزام ٹھہرا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’عوام میں یہ تاثر بنا ہوا ہے کہ مغرب ہی ترقی کرسکتا ہے ہم نہیں کرسکتے۔ انگریز کی غلامی کے ذہن اور سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ اب پوری توجہ ذہنوں کو آزادکرکے ترقی پر ہوگی‘‘۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام انگریز کی غلامی کے ذہن سے کیسے نکلیں گے، جب حکمران ہی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کو فخر سمجھیں گے۔ دنیا جانتی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اس دور کی استعماری قوتیں ہیں۔ ان کے کرتا دھرتا بھی وہی ہیں، جو سامراجی طاقتوں کے سائے تلے محکوم اقوام کا استیصال کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی قوم کو ایک بار پھر کس نے ان عالمی مالیاتی اداروں کے قدموں میں لے جا کر بٹھایا ہے؟ کس نے ان کے ملازمین کو لا کر وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک حوالے کیا ہے؟ ان اداروں کے ذریعے وطن عزیز کی پالیسیوں پر ایک بار پھر عالمی طاقتیں اثر انداز ہو رہی ہیں، لیکن ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق وزیراعظم قوم کو ذہبی غلامی کا طعنہ دے رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ان عالمی ساہوکاروں کے چنگل سے نکل کر پہلے اپنا قبلہ درست کریں اور پھر قوم پر الزام دھریں۔ یہ قوم انتہائی قابل، ہونہار اور تعلیم دوست ہے۔ کم وسائل اور حکومتی غفلت کے باوجود یہاں کے عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پڑھایا ہے۔ ہمارے نوجوان اور پیشہ ور ماہرین خلیجی ممالک سے کیلیفورنیا تک اہم مناصب پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سیکڑوں پاکستانی سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق دنیا کے نامور ترین اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تحقیق کے شعبے میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں، لیکن وزیراعظم ان میں سے دیانت دار اور مخلص اہل علم وفن کو وطن واپس لانے کے بجائے ذلفی بخاری اور تانیہ عیدروس جیسوں پر نظر کرم کرتے ہیں۔ انہوں نے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری کے سپرد کررکھی ہے۔ ان کی اپنی تعلیم وکالت کی ہے اور وہ وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی صرف چاند دکھانے اور رؤیت ہلال کے دینی مسائل میں مداخلت کرنے ہی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے قوم وزیراعظم سے بھی سوال کرنے کا حق رکھتی ہے کہ وہ خود سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے کتنے سنجیدہ اور آزاد ہیں؟