گزشتہ دنو ں کراچی کے علاقے اللہ والا ٹائون میں چار منزلہ عمارت گری جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے یقینا عمارت گرنے کا یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے یہ ایک طویل سلسلہ ہے کئی برس سے کراچی کے عوام جس کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ گرنے والی عمارت یقینا غیر قانونی تعمیرات کا حصہ تھی مگر اس کے قصور وار اس میں مقیم افراد نہیں تھے۔ چائنا کٹنگ کسی غریب مزدور کی ایجاد نہیں یہ اُن اشرافیہ کی ایجاد ہے جنہوں نے اس شہر کو بھوکے بھڑیوں کی طرح نوچ کھایا ہے۔ اللہ والا ٹائون ایک ایسا علاقہ ہے جہاں زیادہ تر غریب مڈل کلاس افراد رہتے ہیں اس علاقے میں گیس، بجلی، پانی، سیوریج کا کوئی بہتر نظام موجود نہیں۔ ارباب اختیار نے اس علاقے کو بے یارو مددگار چھوڑا ہوا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ عمارت گر جاتی ہے قیمتی انسانی زندگیوں کا نقصان ہوجاتا ہے مگر اس شہر کی تینوں سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت اس علاقے میں جانے کی زحمت نہیں کرتی۔
اس شہر کے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں اور اس دھرتی کی تقسیم پر خون خرابے کی دھمکیاں دینے والوں نے کبھی اس شہر کے بہتر مستقبل پر سنجیدہ کوشش نہیں کی، اگر صرف ۳۵ سال کے ماضی پر نظر ڈالیں تو پیپلزپارٹی ایم کیو ایم نے صرف اس شہر کا ذاتی مفادات میں استعمال کیا ہے۔ یقینا غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات نے اس شہر کے مسائل میں اضافہ کیا ہے جس کی روک تھام کے لیے جائز اقدامات کیے جانے چاہییں عدالت عظمیٰ بھی کئی بار غیر قانونی تعمیرات وتجاوزات کے خلاف فیصلے دیتی رہی ہے مگر محسوس یہ ہوا کہ ان بااثر اشرافیہ کہ سامنے شاید قانون بہت کمزور ہے ہر عدالتی فیصلے کے بعد سیاسی اشرافیہ حرکت میں آجاتی ہے چند روز پہلے چیئرمین پیپلزپارٹی تجاوزات پر عدالتی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر شور مچاتی نظر آئی کہ پہلے گھر دو پھر غیر قانونی گھر گرائے جائیں گے۔
ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کا بدلہ بھی غریب عوام سے لیا جارہا ہے کراچی میں گرنے والی عمارتیں ایک بہت بڑا المیہ ہے جو قیمتی انسانی زندگیوں کے لیے نقصان کا سبب بنا ہوا ہے ایک غریب فیملی کا سب بڑا خواب ذاتی گھر ہوتا ہے جو وہ برسوں محنت کر کے پورا کرتا ہے تاکہ اس کی اولاد سکون سے اپنی زندگی ذاتی چھت کے سائے میں گزارے مگر جب اس کا یہ خواب غیر قانونی غیر معیاری تعمیرات کی نذر ہوجاتا ہے تو اس پر قیامت برپا ہوتی ہوگی۔ گزشتہ دنوں اللہ والا ٹائون میں پیشہ آنے والا سانحے میں کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا اس عمارت میں موجود ماں اور تین بچے ہلاک ہوگئے جبکہ باپ نوکری پر ہونے کی وجہ سے محفوظ رہا اس شخص کا تو سب کچھ لوٹ گیا یہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ گیا۔ اسی طرح کے کئی دل خارش مناظر عمارتیں گرنے کے موقع پر دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر ارباب اختیار خوب سیاست چمکاتے ہیں۔
گرنے والی عمارت اور اس کے ساتھ منسلک عمارتیں اس وقت مزید کسی اور حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر منہدم عمارت سے منسلک عمارتیں کمزور ہوگئی ہیں تو سب سے پہلے سندھ حکومت متاثرین کو متبادل مہیا کرے یا کم از کم مکان کی مالیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر رقم کی فراہمی کو ممکن بنائے اور ان مخدوش عمارتوں کو فوری خالی کراکے منہدم کرے تاکہ مزید جانی مالی نقصان سے بچاجاسکے۔
ساتھ ہی کراچی شہر کی تین کروڑ سے زائد آبادی وزیر اعظم، چیف جسٹس سے اپیل کرتی ہے کہ خدارا غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کا ہر ممکن خاتمہ کیا جائے مگر اس اقدام کو اُٹھانے سے پہلے غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کو جنم دینے والے سیاسی ٹولے اور بااثر افراد کو قانون کی مکمل گرفت میں لا کر سزائیں دی جائیں ان کی لوٹی ہوئی دولت سے گرنے والی عمارتوں کے متاثرین کی مدد کی جائے۔ غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کا خاتمہ اُس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب اصل قصور وار قانون کی گرفت میں ہوگا یہ ایسا ہی ہے کہ جب تک آپ زیادتی کے کیس میں ملزم کو سر عام پھانسی نہیں لگائیں گے اُس وقت تاکہ زیادتی کے کیسز پر قابو نہیں پایا جاسکتا بالکل اسی طرح جب تک معزز ادارے غیر قانونی تعمیرات و تجاوازت کو جنم دینے والوں کو سزائیں نہیں دیں گے اُس وقت تک صرف ایک عمارت نہیں بلکہ پورا شہر خوف وہراس میں مبتلا رہے گا۔