ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے

348

دوسرا حصہ

جسارت اور آزمائشیں تو ساتھ ہی رہتی ہیں۔ ایم کیو ایم کا توتی اور کلاشنکوف ایک ساتھ بول رہے تھے کہ ایم کیو ایم حقیقی بن گئی۔ ان کی پہلی پریس کانفرنس لانڈھی میں ہوئی۔ مسعود انور نہایت دبلے پتلے تھے اور فوٹو گرافر محمد احمد اس وقت بہت موٹے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسعود ان کے پیچھے چھپ کر پریس کانفرنس میں پہنچ گئے۔ خبر فائل کی اور شام سے فون آنا شروع ہوگئے ہم کاپی لگوا رہے تھے۔ غالباً ستر یا اسی فون آئے ہوں گے۔ کچھ سے ہاشمی صاحب کی بات ہوئی۔ حاجی جلال بول رہا ہوں تمہارا گھر بھی دیکھا ہوا ہے، بچوں کو بتادو کہ صبح وہ یتیم ہوجائیں گے۔ ایک لفظ نہیں چھپنا چاہیے۔ ہاشمی صاحب سنتے رہے۔ آپریٹر نے بتایا کہ اب تو میں خود ہی فون نمٹا رہا ہوں ان کو تنگ نہیں کررہا۔ ہم نے کہا ہاشمی صاحب اتنے فون آرہے ہیں دیکھ لیں کچھ کم کردیں۔ پوچھا کتنے کالم لگارہے ہو۔ ہم نے کہا تین کالم۔ کہنے لگے چار کالم کردو۔ جب اتنے فون آرہے ہیں تو یہ تو کرنا پڑے گا۔ ہم نے کہا سوچ لیں۔ تو سوال داغ دیا۔ کیا ڈر لگ رہا ہے۔ میاں لائنز ایریا قریب ہے ناں۔ ہم نے کہا نہیں آپ کی فکر ہے۔ کہنے لگے اور اوپر لگادو۔ اور اسی طرح اطمینان سے ویگن کے ذریعے فیڈرل بی ایریا میں 90 کے عقب میں اپنے گھر جا کر سوتے۔ جب وہ اداریے بھی لکھ رہے تھے ان دنوں میں محکمہ اطلاعات کے فون بھی وہی سنا کرتے تھے۔ دھمکی آمیز اور حکومت مخالف مواد شائع نہ کرنے کی ہدایات کے ساتھ فون کیے جاتے تھے۔ ہاشمی صاحب اطمینان سے فون سنتے اور شکریہ کہہ کر رکھتے پھر کہتے۔ شکریہ تو اس لیے ادا کیا ہے کہ ہمارے پاس یہ خبر تھی ہی نہیں اب کسی سے لے کر لگاتے ہیں۔ اور اگلے دن کے فون کو بھی سنتے اور اسے دنیا کی سیر کرادیتے۔ شکوہ کرنے والا اپنا مدعا ہی بھول جاتا۔ پھر اگلے دن نئی شکایت۔ لیکن کبھی ہاشمی صاحب نے کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
1994ء میں جب جدہ سے اردو نیوز کی اشاعت کا فیصلہ ہوا تو پہلی ٹیم میں اطہر ہاشمی صاحب بھی شامل تھے۔ ہمیں کراچی میں موقع دیا گیا اور وعدہ تھا کہ اب سب سے پہلے تمہیں بلائیں گے۔ یہاں بھی ہم ساتھ ساتھ گئے۔ وہ دو سال پہلے جدہ گئے دو سال بعد ہم بھی پہنچ گئے۔ مزیدار تاریخی جملہ ایک بار پھر سننے کو ملا۔ کراچی میں تو آفتاب صاحب نے کہا تھا ایک اور جماعتی آگیا۔ لیکن وہاں کے پاکستانی نیوز ایڈیٹر نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔ لو جی اردو نیوز آج منصورہ II بن گیا۔ اس کو ہم نے اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ اطہر ہاشمی نے کہا کہ ذرا احتیاط کرنا لوگ شکایتیں بہت کرتے ہیں یہاں۔ ان کے اس جملے سے بھی یک گونہ اطمینان ہوا کہ وہ موجود ہیں۔ اور پھر انہوں نے پل پل ہر پل تحفظ کیا اور بہت سی باتوں کا بعد میں پتا چلتا کہ ہاشمی صاحب کام کر گئے ہیں۔ ایک دفعہ پروفیسر خورشید کی دو تین دن کی مصروفیات کی وجہ سے خبریں ہمیں بنانی پڑیں اور سید منور حسن کی آمد اور پروگراموں کی خبریں بھی ہم نے بنائیں تو شکایت پہنچ گئی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ پتا چلا کہ اطہر ہاشمی نے کہا کہ مظفر کی اردو تمہارے رپورٹر سے کہیں بہتر ہے۔ اچھی خبر چھپ جائے تو کیا بُرا ہے۔ لہٰذا کچھ نہیں ہوا، ہاں یہی چیزیں دوبارہ ہوئیں تو ہاشمی صاحب
چھٹیوں پر تھے تو ایڈیٹر نے بلا کر دھمکی دی تھی کہ پاکستان بھیج دوں گا۔ ان ہی دنوں میں ایڈیٹر انچیف محمد المختار الفال نے اطہر ہاشمی صاحب سے پوچھا یہ ایم کیو ایم والے کیا ہیں۔ انہوں نے اس کی تفصیل بیان کی تو استاد فال نے ایک خط آگے کردیا جس پر جگہ جگہ نشانات لگے ہوئے تھے لیکن سوال یہ پوچھا کہ اس کا مطلب بتائو؟ ہماری خبریں کم لگتی ہیں یہاں تو ہم تحریری شکایت کررہے ہیں۔ پاکستان میں تو دفتر کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ اطہر ہاشمی نے تفصیل بتادی کہ بات نہ ماننے والے اخبار پر حملہ کرکے اس میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور نقشہ بدل جاتا ہے۔ مختار الفال نے ایم کیو ایم سعودی عرب کی خبروں پر پابندی لگادی۔ رئوف صدیقی، نگہت مرزا حنا اور کئی ارکان پر مشتمل وفد جدہ آیا اور اطہر ہاشمی سے پوچھا یہ کیوں ہوا۔ انہوں نے بتادیا کہ ایڈیٹر نے پوچھا تھا کہ اس جملے کا کیا مطلب ہے تو میں نے بتادیا۔ ارے یہ کیا کیا آپ نے، تو ہاشمی صاحب نے پوچھا تو تم بتائو کیا بتاتا۔ ارے یہی تو کرتے ہو تم لوگ۔ بہرحال چھ ماہ پابندی رہی پھر یہ وفد ایڈیٹر انچیف سے ملا اور اس نے معاف کیا۔ میگزین میں کھانے پکانے کی ترکیبیں شائع ہوتی تھیں۔ ایک خاتون روز فون کرکے کہتیں کہ میں بہت اچھا کھانا پکاتی ہوں میرا الگ کالم لگوائیں۔ ہاشمی صاحب کہتے رہے کہ لکھ بھیجو۔ دیکھ لوں گا۔ لیکن انہوں نے لکھا نہیں۔ ایک دن ان خاتون کے نام سے کھانا پکانے کی ترکیب شائع ہوئی اس کے بعد کوئی فون نہیں آیا۔ ترکیب کھچڑی بنانے کی تھی۔
اس اردو نیوز سے ہاشمی صاحب کے پاکستان آنے کا سبب بھی ان کی صاف گوئی تھی۔ سعودی عرب کی ممتاز شخصیت عبدالمالک مجاہد نے عمر فاروق مودودیؒ کے ترجمہ شدہ ایک مضمون پر خط لکھا کہ یہ سلفیوں کے خلاف لکھا گیا ہے۔ عمر فاروق صاحب سے پوچھا گیا انہوں نے بتایا کہ شرق الاوسط اور عرب نیوز میں شائع ہوچکا ہے۔ اس پر مجاہد صاحب نے غصے میں بھرا خط لکھا اور مطالبہ کیا کہ اسے شائع کیا جائے۔ اس خط میں مولانا مودودیؒ کو بھی خوب رگیدا۔ اس خط کے کئی دن شائع نہ ہونے پر اس وقت کے چیف ایڈیٹر وہیب محمد غراب نے ہاشمی صاحب سے استفسار کیا انہوں نے کہا کہ ان کے خط کی زبان اچھی نہیں اس لیے شائع نہیں کیا۔ غراب نے کہا کہ بس یہی لکھ دو کہ آپ کے خط کی زبان اچھی نہیں اس لیے آپ کا خط شائع نہیں ہورہا۔ اس کے بعد مالک صاحب نے ایڈیٹر، عمر فاروق مودودیؒ اور اطہر ہاشمی کی شکایت وزارت داخلہ میں کردی۔ وہاں سے صرف استفسار آیا اور ایڈیٹر صاحب ڈر گئے اور اطہر ہاشمی اور عمر فاروق صاحب کو فارغ کردیا۔ بس یہیں سے ہم سب کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہاشمی صاحب کا ساتھ تو نہیں چھوٹ سکتا تھا۔ اطہر ہاشمی صاحب اور ہمارا ایک ہی مقصد تھا جب بھی کوئی پوچھتا کہ نوکری جانے کا افسوس ہے تو ہم کہتے کہ مکہ مدینہ چھوٹنے کا افسوس ہے۔ عمرہ اور حج کرنے گئے تھے حج بھی کیا خوب عمرے اور طواف کیے لیکن دل نہیں بھرا۔ ان کے پاکستان پہنچنے کے تین ماہ بعد ہماری باری آئی اور ہم اسلام آباد جسارت پہنچ گئے اور وہ امت۔ لیکن یہ دوری زیادہ دن نہیں رہی۔ جنوری 2001ء میں ہم اسلام آباد آئے اور ستمبر میں کراچی منتقل ہوگئے۔ دسمبر میں اطہر ہاشمی بھی جسارت واپس آگئے اور جو بات آتے ہی کہی تھی وہ پوری کرکے گئے۔ کہ اب یہیں رہوں گا کہیں اور نہیں جانا۔ اور انہوں نے بات سچ ثابت کردی۔ جسارت سے سیدھے اللہ کے پاس ہی گئے۔
(جاری ہے)