ہاشمی صاحب ایسے بھی تھے

371

 2001ء سے ہمارا ساتھ پھر ہوگیا۔ اور اب کی بار زیادہ شاندار رفاقت رہی۔ ابتدا میں تو ہمارے اور ان کے اداریے کے دن مقرر تھے لیکن بعد میں جو پہلے موضوع پامال کردے کے مصداق جو پہلے لکھ دے یا لکھنا شروع کردے اسی کا اداریہ ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کہتے کہ تم نے موضوع ’’اپنے ہاتھوں‘‘ سے پامال کردیا اب میں نہیں لکھ رہا۔ ہم کہتے کہ ہمارا تو انداز ہی کالمانہ ہے اسے کالم بنادیتے ہیں آپ اپنا اداریہ لکھ لیں۔ لیکن پھر وہ یہی کہتے کہ بس اب تم نے لکھ دیا کافی ہے۔ پھر ہاتھوں سے پامال پر تفصیل سے بیان ہوتا کہ بڑے بڑے مصنف اور مقرر یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال روزانہ اداریہ لکھنے کا سلسلہ گزشتہ برس ان کو فالج کے حملے کے بعد سے مسلسل ہوگیا۔ جب کہ مسعود انور بھی موقع نہیں دیتے تھے بلکہ وہ صبح ہی گھر سے لکھ کر بھیج دیتے تھے۔ لیکن ان اداریوں کی پروف ریڈنگ اطہر ہاشمی صاحب ہی کرتے اور پھر ایک کلاس ہوتی جس میں لفظ ہی کے استعمال کا طریقہ بتایا جاتا۔ کہاں پہلے لگے گا اور کہاں بعد میں۔ یا الفاظ کی تکرار پر وہ گرفت کرتے۔ جس وقت ہاشمی صاحب دفتر آتے ہم اداریہ لکھ رہے ہوتے۔ سوال کرتے کس پر لکھ رہے ہو۔ ہمارا ہمیشہ جواب ہوتا کاغذ پر۔ پھر موضوع بتادیتے چائے کے چند گھونٹ لیتے پھر اخبار اٹھاتے اور پوچھتے میاں یہ کل کا اداریہ غالباً بلکہ یقینا تم نے لکھا ہے۔ یہ نیا لفظ سامنے آیا ہے ذرا اس کے معنی ہمیں بھی بتادو۔ پتا چلتا کہ کمپوزنگ کی غلطی تھی۔ یہ عموماً پیر کو ہوتا۔ کیوں کہ اتوار کو خود ہی لکھنا اور خود ہی پڑھنا ہوتا تھا۔ تو جو غلطی لکھی اسے درست بھی سمجھا اور چھپ گئی لیکن ہاشمی صاحب کی طرح گہری نظر سے پروف ریڈنگ نہیں ہوتی۔ وہ اداریے کو کسی پروفیشنل پروف ریڈر کے حوالے کرنے کے بھی قائل نہیں تھے بلکہ کہتے تھے کہاں ہے پروف ریڈر مجھے تو نہیں ملا کوئی۔
دفتر کے معاملات میں لوگوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے گرما گرمی بھی ہوتی ہے لیکن بسا اوقات ہم ان سے کہتے کہ آپ کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دیتے۔ تو ان کا جواب یہی ہوتا کہ دیکھو اس کی غلطی پر کارروائی کا سیدھا مطلب ملازمت کا خاتمہ ہے۔ آج کل ملازمت ملنا مشکل ہے کسی کو کیوں بیروزگار کریں۔ ڈانٹ ڈپٹ کرکے چھوڑ دو۔ اس قدر رحم دلی پر ہم ان سے کہتے کہ نظم و ضبط قائم رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ تو ان کا جواب ایک مسکراہٹ کے ساتھ یہ سوال ہوتا تھا۔ نظم و ضبط!!! یہاں کس کس شعبے میں ہے ذرا بتائو تو۔ جہاں اور لوگ بدنظمی کررہے ہیں وہاں یہ بھی ضبط کرلو۔ اطہر ہاشمی صاحب آیات قرآنی کے معاملے میں بڑے سنجیدہ تھے۔ انٹرنیٹ پر آیات کا ترجمہ موجود ہونے کے باوجود خود ترجمہ لکھتے، رات گئے وضو کرکے آتے قرآن اٹھاتے اور ترجمہ لکھتے پروف پڑھتے۔ کبھی غلطی شائع ہوجائے تو بہت افسردہ ہوتے کہ اس میں غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ دفتری تنازعات کے حوالے سے ہم انہیں برف کی سل کہتے تھے۔ بندہ نہایت غصے میں ان کے پاس جاتا فلاں نے یہ کردیا فلاں نے وہ کردیا۔ وہ بٹھاتے پوری بات سنتے پھر غصے کو ٹھنڈا کرواتے پھر اس کے نتائج سے آگاہ کرتے پھر کہتے میں دیکھ لوں گا تم چھوڑو، پھر کسی وقت دوسرے فریق کو بلا کر یا اس کے پاس جا کر نہایت نرم انداز میں سمجھا دیتے۔ ایک صاحب نے آخری دنوں میں بھی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اسے ڈانٹ دیتے پھر آہستہ سے کہتے بے وقوف اپنی ملازمت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ کئی مواقع پر کسی کی حماقت پر ہم بھی غصے میں ہوتے تو اس کا یہی راستہ نکالتے کہ اس کے خلاف سخت کارروائی تجویز کرتے اور ہاشمی صاحب کو بتادیتے۔ وہ معاف کردیتے اس طرح غلطی
کرنے والے کو پتا چل جاتا کہ اس کی غلطی سے ملازمت جارہی تھی لیکن ہاشمی صاحب نے معاف کروا دیا۔ یہ حکمت عملی ہوتی لیکن لوگ ہمیں ظالم اور سفاک سمجھنے لگے۔ ہم ابتدائی دنوں سے لوگوں کو بتاتے تھے ہاشمی صاحب ہمارے استاد ہیں۔ پھر کبھی وہ لوگ انہیں ملتے تو ہاشمی صاحب دفتر آکر بولتے۔ ارے میاں تم ساری دنیا میں مجھے بدنام کرتے پھرتے ہو کہ میں تمہارا استاد ہوں۔ کیا کہیں گے لوگ۔ اور ہم مسکراتے رہتے لیکن 2017ء کی بات ہے مغرب کی نماز پڑھنے مسجد گئے واپسی میں اندھیرے کے سبب اپنی چپلیں تلاش کررہے تھے ہم نے نکال کر سامنے رکھ دیں۔ کہنے لگے شاباش استادوں کی جوتیاں سیدھی کرو گے تو ترقی کرو گے۔ ہم نے اس وقت نعرہ لگایا۔ مل گیا۔ کہنے لگے ابے کیا بائولا ہوگیا ہے۔ (یہ ان کا خاص جملہ تھا) کیا مل گیا۔ ہم نے کہا ہاشمی صاحب پینتیس برس بعد سرٹیفکیٹ مل گیا آج تک آپ نے ہماری شاگردی کا اعتراف نہیں کیا تھا آج مسجد میں اعلان کردیا۔ انہوں نے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ نہیں بھئی تمہارے بارے میں اکثر کہتا ہوں کہ اس نے بہت حیران کیا ہے۔ تم توقع سے زیادہ بہتر نکلے۔ اب ہم چلے تم ہی سنبھالنا ہم نے کہا… کہاں چلے۔ اب تو گاڑی چلنا شروع ہوئی ہے لیکن وہ چل پڑے تھے۔ دوسرا سرٹیفکیٹ فاران کلب میں انہوں نے ہماری کتاب کی تقریب رونمائی میں دیا کہ اب تک مظفر کو میں سرسری پڑھتا تھا کہ ٹھیک ہی لکھا ہوگا لیکن کتاب تبصرے کے لیے دی تو ’’بالاستعیاب‘‘ پڑھنے لگے اور کہا کہ اس کا مطلب آپ لوگ خود لغت میں تلاش کریں۔ پھر کہا کہ لکھتا ہے اور خوب لکھتا ہے۔ ہاشمی صاحب کی زبان سے تعریفوں کو بار بار سننے کو دل چاہتا ہے۔ لغت دیکھنے کے بارے میں بھی ہم لوگوں کو توجہ دلاتے تھے۔ پوچھتے لغت دیکھنی آتی ہے۔ خصوصاً عبدالمتین صاحب کو ان کے پاس آتے اور کہتے لغت دیکھنا سیکھ لی۔ اصل مقصد یہ تھا کہ بھائیو علم میں شرم کیا۔ یہ لغت پڑھے لکھوں نے ہمارے جیسوں کے لیے تو لکھی ہے کیا ہوا اگر دیکھ لی جائے۔