وزیر اعظم پاکستان فرماتے ہیں کہ ’’وہ کرپٹ عناصر سے لوٹی ہوئی رقم واپس لیکر تعلیم پر خرچ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ اس عزم کا اظہار انہوں نے حکومت بنانے کے 26 ماہ بعد کیا ہے۔ ویسے تو وہ انتخابات سے بہت پہلے بھی کرپٹ عناصر اور لوٹی ہوئی دولت کے متعلق بہت کچھ کہتے رہے تھے اس لیے قوم کو اس بات کی قوی امید تھی کہ جن عناصر نے بھی ملک کی دولت چاروں ہاتھ پیروں سے لوٹی ہے وہ سب کے سب نہ صرف ملک کے چوک چوراہوں پر الٹے لٹکے نظر آ رہے ہوں گے بلکہ ان کے پیٹوں کو چاک کر کے لوٹی ہوئی دولت کو نکال کر ملک کا خزانہ بھرا جا رہا ہوگا لیکن اپنی قانونی مدت جو 60 ماہ ہے، اس میں سے 26 ماہ گزار دینے کے باوجود بھی نہ صرف ایسے سنگین جرائم میں ملوث عناصر کو گرفتار کرنے میں سخت ناکام رہے ہیں بلکہ ایک دھیلہ بھی ملکی خزانے میں واپس نہیں آ سکا۔ اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ ملک میں جن جن عناصر کے خلاف مقدمات بنائے گئے اور گرفتاریاں عمل میں آئیں وہ سیاسی مخالفین ہی کی عمل میں آئیں اور ان کو بھی عدالتوں سے رہائیاں ملتی رہیں اور یوں 26 ماہ کی ساری بڑھک بازیوں کا نتیجہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ پر آکر ختم ہوگیا۔
جرم اس وقت تک ختم ہو ہی نہیں سکتا جب تمام مجرموں سے ایک جیسا سلوک نہ کیا جائے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں جو پورے پاکستان کو ایک نظر سے دیکھتا ہو۔ چنانچہ انتخابات سے بہت پہلے ہی دعوے میں چھپا اخلاص اس وقت گدلایا ہوا نظر آنے لگا تھا جب ایک طویل فہرست ان عناصر کی جو ملک کی دولت کی لوٹ گھسوٹ میں ملوث تھے، جن پر بد عنوانی کے سنگین مقدمات تھے یا دیگر جرائم میں ملوث تھے ان کو متوقع حکمران پارٹی کے پیچھے چھپتا دیکھا گیا۔ ایسے سارے عناصر پاکستان کی کرپٹ پارٹیوں سے اپنی اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے اْس وقت کی متوقع اور آج کی حکمران پارٹی میں پناہ گزینی اختیار کرتے گئے۔ ممکن ہے کہ موجودہ حکمران پارٹی کو یہ گمان رہا ہو جو کرپٹ عناصر پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں وہ اپنی عادتوں سے تائب ہو جائیں گے اور رضاکارانہ طور پر لوٹی ہوئی دولت واپس کر دیں گے لیکن شاید انہیں یہ بات یاد نہیں رہی ہو چور چوری سے تو باز آ سکتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے کبھی باز نہیں آیا کرتا۔ پارٹی کے سربراہ کو اوّل تو ایسے عناصر کو اپنے قریب پھٹکنے ہی نہیں دینا چاہیے تھا یا پھر کسی بیرونی ملک سے آئے فرد کو جس طرح ’’کورنٹائن‘‘ کر دیا جاتا ہے، ان سب کو ’’کورنٹائن‘‘ کر دیا جاتا اور ’’صحتیابی‘‘ سے قبل سیاست میں آنے ہی نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ وزیر اعظم صاحب ایسا نہیں کر پائے اس لیے نتیجہ یہ نکلا کہ احتساب کا عمل نہ صرف غیر شفاف ہو گیا بلکہ وہ تمام عناصر جن کو گرفت میں لیا گیا وہ احتساب کے شکنجے سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح ایک جانب ملک کی دولت لوٹنے والے مخالف سیاستدانوں سے ملکی دولت واپس لانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو دوسری جانب جن جن کرپٹ عناصر کو پارٹی نے پناہ دی تھی وہ دوست بن کر نہایت بیدرد خاموشی کے ساتھ حکومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایماندار حکومت آ جانے کے بعد جس چینی کو سستا ہونا تھا مہنگی ہو گئی، مہنگائی کا اوسط نیچے آنا تھا، آسمان پر چڑھ گیا، ڈالر کی قدر گر جانی تھی، روپیہ زمین بوس ہو گیا، ملازمین کی تنخواہیں 2 لاکھ روپے ہوجانی تھی، 26 مہینوں سے سالانہ اضافہ بھی نہ مل سکا، سارے اداروں کو عوام دوست بن جانا تھا، جان و مال کے لٹیرے بن گئے، روزگار میں اتنا اضافہ ہونا تھا کہ باہر گئے ہنر مند بحری اور ہوائی جہازوں میں بھر بھر کر واپس آنے پر مجبور ہوجانے تھے، با روزگار بھی بے روزگار ہو گئے، گھر تعمیر ہونے تھے، ہزاروں مسمار کر دیے گئے اور کاروبار کو عروج پانا تھا، بازار کے بازار گرادیے۔
آج 26 ماہ بعد جب پاک آسٹریا ’’فیگوچ شول انسٹیٹیوٹ‘‘ کی افتتاحی تقریب میں بیٹھے شرکا نے وزیر اعظم پاکستان کا عزم مصمم سنا ہوگا کہ بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا مقصد و مدعا کیا تھا تو یقینا علم سے محبت رکھنے والے افراد کو دلی خوشی ہوئی ہوگی اور ان کے دل میں وزیر اعظم کے لیے محبت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہوگا۔ مہنگائی آسمان تک جا پہنچی، امن و امان سے لیکر ہر میدان میں سوائے تنزلی دیکھنے کے باوجود بھی جن کے دلوں میں صاحب کی محبت روئیں روئیں تک اتر چکی تھی، وہ آج بھی کم نہیں ہوئی، شاید اسی لیے کسی کا کہنا ہے کہ محبت دانت میں اٹھنے والے اس درد کی مانند ہوتی ہے کہ جب اٹھے تو شدید تر اور ٹھیک ہو جائے تو جیسے ہوا ہی نہیں تھا۔ بس یہی سوچ کر سب خوش اور مطمئن ہو گئے ہوںگے کہ ابھی قانونی مدت کے پورے 34 ماہ باقی ہیں۔
یہ امید بھی بڑی ظالم شے ہے، کوئی مر بھی رہا ہو تو امید اسے آخری سانس تک ٹھیک ہوجانے کا یقین دلاتی رہتی ہے۔ امید اپنی جگہ، آس و امید بندھانے والے بھی سانس کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیتے۔ 90 دن کی مہلت چھ چھ ماہ تک بڑھتے بڑھتے 2 سال اور اب مزید 3 سال میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا تک تو آ ہی گئی ہے ممکن ہے کہ اگلے 60 ماہ کی ایک اضافی مدت اور بھی مل جائے۔ مخالفین شاید خود بھی ایسا ہی چاہتے ہوں اس لیے کہ مریض پاکستان اب اتنا سیریس ہو چکا ہے کہ کوئی معالج بھی اس کا علاج کرنے کے لیے تیار نظر ہی نہیں آتا۔