دمڑی کی سرکار

52

 افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے دوسال میں کچھ نہیں کیا۔ اللہ کے بندو کچھ نہ کرکے دوسال نکال دینا، حکومت برقرار رکھنا کیا معمولی بات ہے۔ حضرت داغ دہلوی نے اس غزل میں عمران خان کی حکومت کا اہل پاکستان سے سلوک کیا عمدگی سے بیان کیا ہے:
نگاہ پھیر کے عذر وصال کرتے ہیں
مجھے وہ الٹی چھری سے حلال کرتے ہیں
نہ دیکھی نبض نہ پوچھا مزاج بھی تم نے
مریض غم کو یونہی دیکھ بھال کرتے ہیں
مرے مزار کو وہ ٹھو کروں سے ٹھکرا کر
فلک سے کہتے ہیں یوں پامال کرتے ہیں
اُدھر تو کوئی نہیں جس سے آپ ہیں مصروف
اِدھرکو دیکھیے ہم عرض حال کرتے ہیں
وہاں فریب ودغا میں کمی کہاں توبہ
ہزار چال کی وہ ایک چال کرتے ہیں
چھری نکالی ہے مجھ پر عدو کی خاطر سے
پرائے واسطے گردن حلال کرتے ہیں
ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
حضرت داغ نے تو ’’کمال‘‘ طنز کے طور پر استعمال کیا ہے یعنی اچھا کام نہیں کرتے لیکن یقین کیجیے ہم نے یہ اشعار عمران خان کی تعریف و توصیف کے طور پر درج کیے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک لطیفہ سن لیجیے
ایک نشئی تھا۔ بیش تر وقت افیون کے نشہ میں ٹُن۔ بیوی بھی اس کا خیال نہیں رکھتی تھی۔ ایک دن نشئی صبح دیر سے اٹھا۔ بیوی سو رہی تھی۔ اس نے بیوی سے کہا ’’بہت دیر ہوگئی ہے سخت بھوک لگی ہے‘‘۔ بیوی تنک کر بولی ’’آج میں دیر سے کیا اٹھی ہوں تم نے شور مچادیا ہے۔ جائو نان بائی سے شوربا لے آئو۔ روٹی تو ایک آدھ ڈلیا میں پڑی ہے‘‘۔ نشئی نے بیڑی سلگائی، کھانستے ہوئے اٹھا، پیالہ لیا اور نان بائی کے ہاں پہنچ گیا۔ کہنے لگے ’’پہلوان اس پیالے میں دمڑی (ایک پیسہ کا چوتھائی) کا شوربا ڈال دینا‘‘۔ گھر پہنچا تو بیوی سے کہا ’’لو بڑے مزے کا سالن ہے، تم کھالو میں کارخانے میں چائے پاپے منگا لوں گا‘‘۔ افیونی کارخانے چلنے کے لیے تیار ہوا تو بیوی کے چیخے کی آواز آئی ’’یہ کیسا شوربا اٹھا لائے‘‘۔ افیونی نے پوچھا ’’کیوں کیا بات ہے‘‘۔ بیوی نے کہا ’’اس میں چوہے کی دم نکلی ہے‘‘۔ افیونی کو بہت غصہ آیا۔ نان بائی کے ہاں پہنچا اور کہنے لگا ’’پہلوان دوستی پر لات ماردی‘‘۔ پہلوان نے پوچھا ’’کیا ہوا‘‘۔ افیونی بولا ’’شوربے میں چوہے کی دم نکلی ہے۔ میری بیوی بہت غصہ میں ہے‘‘۔ نان بائی نے کہا ’’میرے بھائی اپنی بیوی سے بولو، کیا دمڑی کے شوربے میں ہاتھی کی دم نکلے گی؟‘‘۔
تو صاحبو! ایک کرکٹر اور وہ بھی سلیکٹڈ، اس کی کارکردگی کے شوربے میں سے چوہے کی دم ہی نکل سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان، مہاتر محمد، طیب اردوان یا چین کے صدر ژی جن پنگ نہیں ہیں جن کی کارکردگی کے شوربے میں ہاتھی کی دم سما جائے۔
اس حکومت کے دو چہرے ہیں ایک سول اور دوسرا عسکری۔ سول چہرہ وہ کام کررہا ہے جو عسکری کو کرنا چاہیے اور عسکری چہرہ وہ کام کررہاہے جو سول کو کرنا چاہیے۔ عسکری چہرے پر مفاہمت کا جنون طاری ہے۔ بھارت کی ناہنجار مودی قیادت جس کا ادنیٰ سا جواب دینے پر بھی تیار نہیں۔ بھارت کے سامنے ہماری قیادت نے بڑے خلوص نیت سے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر ضم کرنے کے بعد مودی حکومت کی یہ اخلاقی ذمے داری تھی کہ ہماری عسکری قیادت کے غصے پر پانی ڈالے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارا غصہ انہیں گریہ وزاری محسوس ہوتا ہے اور وہ کشمیر میں ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھائے چلی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے آرمی چیف نے کہا تھا ’’جنگ تھوپی گئی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے‘‘۔ اس بیان میں جو بے بسی جھلک رہی ہے وہ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت کی بے بسی ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کو بیدار کرنے کا درس دیا تھا۔ ہمارے شاہین سمجھتے ہیں کہ کمزور معیشت کے ساتھ خودی کی بیداری خودکشی ہے۔ جب تک معیشت طاقتور خطوط پر بحال نہیں ہوتی ہمیں بحیثیت قوم شتر مرغ سے اسباق سیکھنے ہوں گے۔ جنگی فتوحات کے بعد امن کی بات کرنی چاہیے۔ یہ پرانی بات ہے۔ ہم مفاہمت کے ذریعے بھارت سے فتح حاصل کرکے عسکری تاریخ کا ایک نیا باب رقم کرنا چاہتے۔
ہماری سول قیادت کو ملک گیر مفاہمت کی ضرورت ہے لیکن اس نے اپنے ہر مخالف سے ملک کے ہر حصے میں جنگ چھیڑ رکھی ہے حالانکہ اسے ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ اس کے بعد اسے کسی سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے لیکن عدم تحفظ کا احساس اسے کسی طرح چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں منی لانڈرنگ قانون مسلط کرکے وہ عام شہریوں، کاروباری افراد اور تنظیموں کے خلاف جارحانہ اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے دوسری طرف وہ عدالتوں اور ریاستی اداروں کا استعمال کرکے مخالف سیاست دانوں اور میڈیا کو ڈرانے دھمکانے میں مصروف ہے۔ پورے ملک کا کباڑہ ہو چکا ہے لیکن حکومت کی کوششوں کا محور نواز شریف کی وطن واپسی ہے۔ وہ برطانوی حکومت پر زور دینا چاہتی ہے کہ وہ نواز شریف کو گرفتار کرکے پاکستان بھیجے۔ اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے بعض وزرا اس حد تک اتر آئے ہیں کہ وہ نواز شریف کو گالیاں اور ذاتی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ وقفوں وقفوں سے نیب کی دھلائی کرتی رہتی ہیں جج صاحبان اکثر ریمارکس دیتے رہتے ہیں کہ نیب انصاف کی دھجیاں اڑارہی ہے، اپوزیشن کو نشانہ بنارہی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت نیب کو استعمال کرنے سے باز نہیں آتی۔ کوئی نہیں جو نیب کو سمجھا سکے کہ وہ اپنی کاروائیاں منصفانہ بنائے۔ نیب چیئرمین بھی کیا کریں بلیک میلنگ بری بلا ہے۔
دوبرس پورے کرتی اور ٹھنڈے میٹھے انٹرویوز دیتی حکومت بظاہر بڑی مطمئن نظر آتی ہے۔ اس کے اسٹیبلشمنٹ کے قائدین بھی اسی حالت سکون میں ہیں کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ لیکن عملی صورت حال ایسی نہیں ہے۔ عوامی بے چینی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ انتہائی مایوسی اور جبر ایک چنگاری کی راہ دیکھ رہا ہے۔ عمران خان پر اب کسی کو اعتماد نہیں رہا۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو انا کے جزیرے میں قید ہے۔ اسے برسر زمین حقائق کی کچھ خبر نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے جان چھڑانا ہی ہوگی ورنہ یہ دمڑی کی سرکار بہت کچھ بہا کر لے جائے گی۔