ظفر دارک قاسمی
دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت وتعصب کے تسلسل سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی بڑی سازش کا حصہ ہیں۔ عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر روز کہیں نہ کہیں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی یا ناروا سلوک اپنایا جاتا ہے۔ جان و مال کے ضیاع اور عزت و آبرو کی پامالی کے ساتھ اسلام کو نشانہ بناکر مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ ان کی بے چینی بڑھانے کے لیے دانستہ اشتعال انگیزیاں کی جاتی ہیں۔ ان کے جذبات واحساسات کو بری طرح مجروح کیا جاتا ہے اور اس کے پس پردہ وہ طاقتیں اور حکومتیں ہیں، جو اپنے متشدد ہمنواؤں سے منصوبہ بند طریقے کے ساتھ یہ مکروہ واقعات کرواتی ہیں۔ یہاں فطری طور پر سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ جہاں بھی اشتعال انگیزی اور مذہبی احساسات کو بھڑکانے کا کام کیا جاتا ہے، اسے روکنے کے لیے وہ عالمی رہنما کیا کرتے ہیں جو حق وانصاف کی باتیں کرتے ہیں۔ دنیا کو عدل و مساوات کا درس دیتے ہیں۔ آج عالمی امن اور حقوق انسانی کے حوالے سے بات کریں تو پتا چلتا ہے کہ کل تک جن ممالک اور خطوں کو بہتر بتایا جاتا تھا آ ج وہاں بھی یکسر حالات بدل چکے ہیں۔ انسانی عظمت و حقوق کو روندا جارہا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور ناداروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہر طرح کا تشدد اور ظلم و جبر کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ تحفظ نفس اور انسانی حقوق کے نام پر تشکیل دیے جانے والے اداروں اور تنظیموں کی خاموشی معنی خیز اور مجرمانہ نوعیت کی ہے۔
امت مسلمہ کو یاد رکھنا ہوگا کہ جب بھی اسلام یا رسول خدا کی شان میں کسی ملک اور خطے کا سر پھرا گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو جہاں اس کا مقصد مسلمانوں کو تکلیف دینا ہوتا ہے، وہیں اسے اقتدار پر مسلط اپنے آقاؤں کی خوشنودی بھی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ حال میں سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ رونما ہوا۔ علاوہ ازیں مختلف اوقات میں رونما ہونے والے مذموم مناظر جیسے فرانس میں حجاب پر پابندی، یا پھر آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کسی بھی طرح کی گستاخی کا معاملہ ہو۔ اس طرح کی مذموم حرکتیں اسی لیے انجام دی جاتی ہیں تاکہ مسلمان مشتعل ہوں۔ انہیں اسی طرح کی چیزوں میں الجھا کر رکھا جائے۔ آ ج کا دور سوشل میڈیا کا ہے۔ اس نئے ہتھیار کے ذریعے افکار و نظریات کو اِدھر سے اُدھر کرنا نہایت سہل ہو چکا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی معاند و حاسد یا متعصب جب قابل اعتراض اشتہار کی اشاعت کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتا ہے، تو اس کی اشاعت کا ذریعہ ہم خود ہی بنتے ہیں۔ اسے اتنا وائرل کردیتے ہیں کہ نامناسب مواد لمحوں میں دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے، جب کہ درحقیقت دشمنان اسلام کا مقصد بھی یہی ہے تاکہ اُن کی مذموم حرکتوں سے مسلمان واقف ہوں اور جذبات کی رو میں بہ کر اپنے ہوش کھو بیٹھیں۔ اس کے بعد دنیا کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ ردعمل یا مزاحمت کے طور پر احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں۔ یقیناً مذہب کے خلاف رونما ہونے والی منصوبہ بندی اور توہین آ میز کلمات کا دفاع فطری بات ہے، لیکن اکثر ہم غم و غصہ کے اظہار کے لیے جذباتی ہوجاتے ہیں جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی تو فرقہ پرست طاقتیں اور مخالفین و معاندین چاہتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی کی دکھتی رگ کو چھیڑا جائے اور پھر ان کے جذبات کو ہوا دے کر انہیں جذباتی بنا یا جائے تاکہ ان پر الزامات عائد کرکے خود ان ہی کو مجرم قرار دے دیا جائے۔اس کھیل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ ہی انصاف مل پاتا ہے اور نہ ہی مخالفین پر کوئی اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا جب بھی کہیں کوئی مذموم یا قابل اعتراض واقعہ رونما ہو تو ہمیں سنجیدگی اور متانت کے ساتھ سوچ سمجھ کر اس کا دفاع کرنا چاہیے۔ عموماً دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مسلمان خصوصاً نوجوان طبقہ اغیار کے ہاتھوں استعمال ہو جاتے ہیں۔
اپنے اندر مثبت ردعمل جیسی صفات پیدا کرنے کے لیے ہمیں قرآن کریم اور احادیث رسول کا مطالعہ کرنا ہوگا اور صرف مطالعہ ہی نہیں بلکہ اس کے رموز واشارات اور مفہوم و تشریح کو بھی سمجھنا ہوگا۔ سیرت رسول اور سیرت صحابہ سے بھی سبق حاصل کرنا ہوگا۔آج ضرورت ہے کہ ہمیں توازن و اعتدال قائم رکھنے کے لیے گوہر علم اور دیگر تمام روشن صفات سے مزین ہونا ہوگا۔ مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف جو زہر فشانی یا نفرت پائی جاتی ہے اس کی وجوہات میں سے ایک اہم یہ بھی ہے کہ وہاں اسلام تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، جس سے یہود و ہنود خوف میں مبتلا ہیں۔ سوئیڈن اور ناروے میں بھی اسلام کی اشاعت تیز ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے قرآن کریم کے نسخے کو نذرِ آ تش کرکے بے حرمتی کی گئی۔ مخالفین اسلام نے وہ کونسا ہتھیار ہے جو اسلام کے شفاف رخ کو داغدار کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا، مگر جب بھی کوئی اسلام مخالف واقعہ رونما ہوا، نتیجتاً اسلام کو زیادہ پڑھا گیا اور کئی افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔ اسلام کے اس بڑھتے دائرے سے اب مغربی دنیا خوف محسوس کررہی ہے۔ چنانچہ اسلامو فوبیا نامی پروپیگنڈا ایجاد کیا گیا، جس کے لیے اسلام دشمنوں نے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا بھرپور سہارا لیا اور پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مذموم سعی کی جا رہی ہے۔ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دشمنوں کو نفرت مسلمانوں سے نہیں بلکہ اسلام سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کی انفرادی غلطی کو اسلام سے جوڑ کر دکھایا اور بتایا جاتا ہے۔