بے غیرتی، نفرت انگیز بے حسی اور منافع کی جوع البقر، ان اوصاف خبیثہ کو اگر سمو دیا جائے اور اْسے ایک شکل دے دی جائے تو … کے الیکٹرک کا ادارہ ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ ادارہ طویل عرصے سے کراچی کے شہریوں پر ایک درد ناک عذاب کی صورت میں مسلط ہے اور اس کی بدمعاشیاں کسی طور پر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ تمام تر عوامی احتجاج کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا جن بے قابو ہے اور اْسے بوتل میں بند کرنیکی ہر کوشش بے سود ثابت ہو چکی ہے۔ صبح کا ذب کا وقت ہو، صبح صادق ہو، تپتی ہوئی دوپہر ہو، شام کا وقت ہو جب عام آدمی تھکا ہارا اپنے کام سے گھر واپس لوٹتا ہے یا آدھی رات، لوڈ شیڈنگ نے اْس کی زندگی ایک ایسی سزا بنادی ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔ مرے پہ سو دْرے کے مصداق کے الیکٹرک کے وہ اضافی بل ہیں جو کراچی کے شہریوں سے ہر ماہ بھتے کی شکل میں وصول کیے جاتے ہیں تاکہ اس ادارے کے کرتا دھرتا ہر ماہ پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ لاکھ روپے تنخواہوں اور اس کے علاوہ لاکھوں روپے کی مختلف مراعات سے مستفیض ہو سکیں۔
مسلسل لوڈ شیڈنگ کی شکل میں کھلی بدمعاشی اور اضافی بلوں کی شکل میں معاشی دہشت گردی کو کوئی لگام دینے والا نہیں۔ گورنر سندھ ہوں، وزیر بحری اْمور علی زیدی ہوں یا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ان سب کا تعلق کراچی سے ہے۔ شرمناک اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود یہ حضرات کراچی کو اس عذاب سے نجات دلانے کے ضمن میں ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی جیتی جاگتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان حضرات نے سوائے زبانی جمع خرچ کے ابتک کچھ نہیں کیا اور اگر کچھ کیا ہے تو کیا کیا ہے؟ اگر سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ کچھ کیا ہوتا تو اْس کے کچھ نہ کچھ مثبت نتائج تو سامنے آنا چاہیے تھے۔ چند دن قبل ہی گورنر سندھ الیکٹرونک میڈیا پر فرما رہے تھے کہ کل سے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی جس پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا تھا کہ غیر اعلانیہ نہیں تو اعلانیہ لوڈشیڈنگ تو ہوگی اور وہی ہوا اگلے روز سے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو گیا اور گورنر صاحب کو جو یقین دہانی کے الیکٹرک کے ذمے داروں نے کرائی تھی وہ ہوا میں اڑا دی گئی۔ اور گورنر صاحب نے اب چپ سادھ لی ہے۔ خبروں میں یہ بھی پڑھا اور سنا گیا کہ وزیر اعظم نے کراچی میں وقفے وقفے سے جاری بجلی کے تعطل کا نوٹس لے لیا ہے اور کے الیکٹرک کے ذمے داروں کو طلب کرلیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم نے جن معاملات کا نوٹس لیا تھا کیا وہ حل ہو گئے یا مزید بگڑگئے؟ پٹرول کی قیمت میں یکمشت 25روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا گیا مگر وزیر پٹرولیم بشمول وزیر اعظم کچھ نہ سکے، شوگر مافیا کیخلاف سخت کارروائی کے بلند بانگ دعوے اور اعلانات ابتک صرف خبروں کی حد تک ہیں عملی طور پر کوئی کاروائی ہوتی نظر نہیں آتی، آٹے کی قیمت میں چھ روپے فی کلو اضافے کی نوید ْسنادی گئی ہے۔ مگر متعلقہ وزیر اور وزیر اعظم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان اور اْن کی سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے جن بلند بانگ دعووں اور وعدوں کی بنیاد پر ووٹ مانگے تھے سب کچھ اْس کے برعکس ہو رہا ہے۔ بدعنوانی آج بھی ہر سطح پر حکومت کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے، رشوت خور سرکار ی عمال پہلے سے زیادہ راشی ہو چکے ہیں یعنی اْنہوں نے رشوت کے ریٹس کام کی نوعیت کے حساب سے بڑھا دیے ہیں اسی طرح پولیس اور دیگر سرکاری ونیم سرکاری ادارے جن کا اولین فرض عوامی خدمت اور اْن کے مسائل حل کرنا ہونا چاہیے تھا اْن کی اولین ترجیح اپنی اپنی جیبیں بھاری کرنے پر مرکوز ہے۔ حکومت جب بھی عوام کو سہولت دینے کی بات کرتی ہے عوامی مسائل اور مصائب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف النوع مافیاز کا ایک خفیہ الائنس بنا ہوا ہے جو پس منظر میں رہ کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے جبکہ حکمران جو پیش منظر میں ہیں اْن کا کام صرف نوٹس لینا اور عوام کو طفل تسلیاں دینا رہ گیا ہے بہر کیف اس حکومت کی دوسالہ کاکردگی نے ثابت کردیا ہے کہ یہ ایک نا اہل اور نالائق ترین حکومت ہے۔
بات کراچی میں جاری لوڈشیڈنگ کی ہو رہی تھی اور باتوں ہی باتوں میں کسی اور سمت جا نکلی۔ 16 جولائی کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ کے الیکٹرک کے سی ای او نے لوڈ شیڈنگ پر معذرت کا اظہار کیا ہے ـ اور اس کے ساتھ ہی اْسے Justify کرنے کی مذموم کوشش بھی کی ہے، اْن کی یہ معذرت اور بے ر حمانہ لوڈ شیڈنگ کس جواز پیش کرنیکی کوشش جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی نا اہلی پر پشیمانی کا اظہار کرتے، وہ اْس کی احمقانہ تاویلات پیش کر
رہے ہیں اْنہیں تو شرم سے چْلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے، لیکن نہیں، شرم و احساس با ضمیر اور غیرت مند افراد کی فطرت میں ہوتی ہے، کے ای کے سی ای او کا اس سے کیا علاقہ؟ اس شخص کی کم سے کم سزا یہ ہونا چاہیے کہ اسے فیڈرل بی ایریا میں واقع کسی عام سے فلیٹ یا زیادہ سے زیادہ 120 گز کے عام سے مکان میں ایک مہینے تک رہنے کا پابند کیا جائے جہاں ایرکنڈیشنر کی سہولت قطعاً نہ ہوتا کہ اسے احساس ہو کہ اس شہر کا عام آدمی کس طرح لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیل رہا ہے۔ اور کے الیکٹرک اور اْس کی انتظامیہ کے بارے میں کیا جذبات رکھتا ہے اس شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ یا شٹ ڈاون نے کراچی کے باسیوں کو بلند فشار خون اور عارضہ قلب کے علاوہ ذ ہنی مریض بنا دینے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا نتیجتاً اْن میں اس ادارے کے خلاف غصیّ اور نفرت کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے۔ اگر جلد ہی اس مسلّہ کا مستقل حل تلاش نہ کیا گیا اور حکومت صرف نوٹس پر اکتفا کرتی رہی تو کسی دن یہ لاوا اس بری طرح پھٹے گا کہ معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور پھر وہ دمادم مست قلندر ہوگا جسے دْنیا دیکھے گی۔